کالموں، تجزیوں اور برق ابلاغ کے سیلاب میں ایک موضوع مسلسل پٹتا ہے مگر ناجانے کیوں اس کے باوجود مسائل اور بحران حل نہیں ہو پاتے اور نہ ہی حکمرانوں، سیاست دانوں اور متعلقہ محکموں کے کان پر جوں تک رینگتی ہے۔ ایک دور تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برق ابلاغ نہ ہونے کے باوجود چند مٹھی بھر اخباری کالموں میں اتنی تاثیر اور جان ہوا کرتی تھی کہ کالم نگار بسااوقات حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ آج میڈیا کے ذریعے ہر مسئلہ تو سامنے آ جاتا ہے کیونکہ میڈیا کو مسائل اور خبروں کی اشد ضرورت رہتی ہے لیکن عوام اپنے مسائل کی آگ میں اسی طرح سلگتی چلی آ رہی ہے جیسے کئی عشروں پہلے سلگتی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوا کرتی تھی۔ تھر میں ایک مرتبہ پھر تھرتھر جاری ہے، کئی بے گناہ اور معصوم بچے قحط سالی کا شکار ہو چکے ہیں، مزید کتنے ہوں گے اور کب تک ہوتے چلے جائیں گے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسا لگا تھا کہ جب وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے یہ بیان داغا کہ روزانہ چھ سو بچے مرتے ہیں مگر تھر کے ایک دو بچوں پر واویلا کیوں کھڑا کیا جاتا ہے تو کم از کم سندھ اسمبلی یا پھر قومی اسمبلی میں شیم شیم کے نعرے گونجیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ تھر کے مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔ حکومت سندھ حکومت اور ایم کیو ایم بھی تھر کی قحط سالی کو ختم نہیں ہوتا دیکھ سکتی۔ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ اگر وڈیرے ثابت نہ ہو چکے ہوں تو وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف خوب نعرے بازی کرتے ہیں اور اس طرح سے اپنی شخصیت کو ابھارنے کی جستجو میں مگن رہتے ہیں حالانکہ جاگیرداری ایک سوچ کا نام ہے جو اس وقت سیاستدانوں اور حکمرانوں سے زیادہ کسی میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ گذشتہ روز جب تھر میں قحط سالی اپنا حشر برپا کر رہی تھی تو اسی وقت بلوچستان میں بھی دشت و خون کی ہولی کھیلے جانے کا سماں برپا تھا۔ کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی کے جج کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ ان کی گاڑی پر بم سے حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہے مگر ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ بولان میں پانچ افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اندرون سندھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔ گذشتہ برس جب میڈیا گھومتا پھرتا تھر پہنچ گیا تھا اور پھر برق رفتاری کے مناظرے اور مقابلے شروع ہوئے تھے تو وزیراعظم نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی تھر پہنچے تھے۔ میڈیا کی آنکھ کھلی ہو تو انہیں اس آنکھ کے ذریعے عوام تک پہنچنے کی بڑی خواہش پیدا ہوتی ہے اور تھر کی محرومی یہی خواہش ٹھہری۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھڑک لگائی کہ سولر سسٹم کے ذریعے تھر کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے خصوصی پیکج کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تھر جا کر خوب سیاست گری کرتے رہے لیکن ایک سال بھی نہیں گزرا اور گویا چند ماہ بعد سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ تھر میں قحط سالی سے مظلوم، بے آسرا اور بے بس بچے، بزرگ اور عورتیں زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ حکمران ایک طرف بین الاقوامی دوروں میں مصروف ہیں دوسری طرف سیاست دان دھرنوں اور احتجاج کے ذریعے سیاست کی دکان کو چمکانے میں مگن ہیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی کا اس سے بڑا شرمناک منظر کیا ہو گا کہ تھر کے سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر کو دیئے گئے شوکاز نوٹس واپس لے لئے گئے۔ اگر پیپلزپارٹی اور وفاقی حکومت میں اتنا دم خم اور صلاحیت نہیں کہ وہ بے گناہ اور مظلوم بچوں کی آہ و فغاں نہ سن سکے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا بازار آج بھی گرم ہے۔ جنوبی پنجاب کی محرومی آج بھی وہاں کے بے کس لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہی ہے لیکن حکمران اور سیاستدان کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ کو اپنی سیاسی وراثت قرار دیتے نہیں تھکتی اور عالم میں بدحالی یہ ہے کہ تھر کے مسئلے پر سندھ حکومت صرف ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے سینگ اڑائے ہوئے ہے اور وہاں کی محرومی ختم کرنے کے لئے عملاً کچھ نہیں کیا جا رہا۔ وزیراعظم نوازشریف کو چاہیے کہ وہ غیرملکی یاتراؤں سے ہٹ کر ذرا تھر جانے کی بھی زحمت گوارا کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو آصف علی زرداری کی طرف سے سیاسی نکیل ڈال کر ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ تھر میں مرنے والا ایک ایک بچہ اور ایک ایک انسان بے گناہ موت تو ضرور مر رہا ہے مگر اس کی ذمہ داری وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ آج طاہرالقادری کی عوامی تحریک کہاں ہے۔ وہ چندہ اکٹھا کر کے اور دیگر سازوسامان لے کر تھر کیوں نہیں پہنچ سکتی۔ عمران خان ملک کے مختلف شہروں میں گھوم پھر رہے ہیں لیکن انہیں تھر اسی طرح یاد نہیں ہے جس طرح وقت کے تقاضے بدلنے کے ساتھ لاپتہ افراد کا ایشو ان کی زبان پر نہیں آتا۔ اس وقت ملک میں محرومی ہے اور وہ بڑھتی چلی جا رہی ہے اس محرومی کی اصل جڑ سیاسی بحران ہے جو حکومتی ایوانوں میں بھی گردش کر رہا ہے اور سب کچھ ایسے ہی جاری ہے جیسے پیپلزپارٹی کے دور میں جاری تھا۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ موجودہ تمام بحرانوں اور مسائل کا ذمہ دار معاشی و اقتصادی اور توانائی اعتبار سے امریکی مجاہد پرویزمشرف ہے لیکن افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ پانچ سال تک پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد آج مسلم لیگ(ن) کی جمہوری حکومت بھی عوام کے مسائل اور بحران حل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ آج مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو اقتدار میں آئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ چین کے دورے کر رہے ہیں اور یہی بتایا جا رہا ہے کہ توانائی کے منصوبوں کو جلد حل کر لیا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے جاری منصوبے جن پر اعلان کیا گیا تھا اب تک کیا پیش رفت سامنے آ سکی ہے۔ سابقہ منصوبوں کو بار بار دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ تھر میں قحط سالی سے ہونے والی تھرتھر بظاہر سامنے مگر پورے ملک میں ہر گھر کے اندر مہنگائی کے باعث ہونے والی تھرتھر حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نظروں سے اوجھل ہے جو اگر پیمانے سے باہر آ گئی یعنی پیمانہ لبریز ہو گیا تو پھر جو ہو گا اس بارے میں خود ہی حکمران اور سیاستدان سوچ لیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن بتائیں کہ روزانہ چھ سو بچے جو موت کی وادی میں جا رہے ہیں ان میں سے کتنے سو کی ذمہ داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے اور کتنوں کا حساب انہوں نے روزمحشر اللہ تعالیٰ کے روبرو دینا ہے۔