امی جی ! آج آپ کی سالگرہ ہے ! آپ بتایا کرتی تھیں کہ جس روزآپ پیدا ہوئی تھیں آپ کے والد بے حد خوش تھے۔ علامہ اقبال ؒ کے شاگرد ،ہر بات کا جواب اقبال ؒ کی شاعری میں دیا کرتے تھے۔اپنی ماں کے اکلوتے فرزند اپنی بیٹی کواقبال کے ؒ خواب کی تعبیر دیناچاہتے تھے۔میرے نانا مرحوم نور محمد چیمہ عورت کی تعلیم و ترقی کے بہت داعی تھی۔میری نانی مرحومہ کو بھی انگریزی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اقبال ؒ کے دور میں وکالت کی ڈگری حاصل کی ۔ میرے نانا مرحوم ایک خوبرو، ذہین اور باصلاحیت نوجوان تھے،جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ امی بتایا کرتی تھیں کہ جس وقت ان کے والد کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو ان کے والد نے انہیں سینے سے لگا رکھا تھا۔ بستر مرگ پر بھی علامہ اقبالؒ کا کلام سنایا کرتے تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہ نور محمد چیمہ ایک دن اس ملک کا چیف جسٹس بنے گا ۔ وکالت کی ڈگری بستر مرگ پر موصول ہوئی۔ زندگی نے اقبال ؒ کا خواب پورا کرنے کی مہلت نہ دی ۔ یہی جملہ ایک امریکی پروفیسر نے میری بیٹی مومنہ چیمہ کے لئے بھی کہا تھا مگر اللہ نے اسے بھی مہلت نہ دی اور وہ بھی علامہ اقبال ؒ کی شخصیت کا عکس تھی۔ میرے ناناکوڈگری کی خوشی کے اظہار کا موقع بھی میسر نہ آسکا۔ اقبال ؒ کے شاگرد اور ایک ذہین ا ور حسین انسان بھی مومنہ کی طرح پچیس سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے ۔میری ماں کو وہ لمحات اپنی موت تک یاد رہے اوراکثر رو دیا کرتیںکہ اے خدا کسی کو میری طرح یتیم نہ کرنا ۔یتیمی کا درد ہی تھا جس نے میری ماں کو آقا نامدار محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کا اسیر کر دیا۔ میرے نانا مرحوم اپنی لاڈلی کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ میری امی جان بھی بے حد ذہین تھیں مگر باپ کی ناگہانی موت کے بعد باپ کا خواب پورا نہ کر سکیں۔ سوتیلے رشتوں کے سنگ دل رویوں سے خوفزدہ بیوہ ماں نے اپنی کم عمربیٹی کی شادی کر دی۔ بیوہ اور زمانے کی ستائی ہوئی والدہ کی سخت تربیت کی وجہ سے میری امی عام لڑکیوں کی طرح شو خ و چنچل نہ تھیں۔امی جی بہت صابر،کم گو،دانااور مدبرخاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی زندگی کی فلم بنا رکھی ہے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی سے پردہ اٹھاتی رہتی ہے۔ زندگی کی یہ فلم بڑے عجیب و غریب ادوار اور موڑ دکھاتی ہے۔مشہور و معروف اولادوں کی مائیں اکثر غیرمعروف ہوتی ہیں۔ میری ماں نہ وکیل تھیں اور نہ پی ایچ ڈی مگر دانشور ، مفکر و صوفی،مردم شناس، بردبار، خوش شکل،خوش لباس، خوش گفتار،پاکیزہ فطرت اور ایک دبنگ خاتون تھیں۔کئی خاندانوں کی ملکہ اور چودھرانی تھیں ۔ چادر اور چار دیواری میںمحددود رہنے والی ماں کے انتقال پر اس قدر ہجوم تھا کہ عقل حیران تھی ۔اس دن اندازہ ہوا کہ اصل رونق تو میری ماں ہے۔ بڑے گھر میں تنہا ہوتیں تو بھی گھر بھرا دکھائی دیتا، گھر وہی ہے مگرہجوم میں بھی خالی محسوس ہوتا ہے۔امی کی جدائی میں کئی غریب یتیم بیوائیں ان کی نیکیاں یاد کرکے روتی ہیں۔ امی کہا کرتی تھیں کہ اپنی اولاد کے لئے تو سب ہی قربانیاں دیتے ہیں،دولت اکٹھی کرتے ہیں،گھر اور جائیدادیں بناتے ہیں مگر بیوہ اور یتیم رشتے داروں کی خدمت اصل نیکی ہے ۔امی کی پرانی خدمت گزار خالہ فاطمہ کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ امی جی کے انتقال کے بعد خالہ فاطمہ رویا کرتیں کہ بی بی جی کے بعد اب اس گھر میں دل نہیں لگتا ۔ ماں باپ کے بعد ہر اس رشتے کی قدر ہو تی ہے جس سے ماں باپ کا دل راضی تھا۔امی جی اپنے باپ کی یاد میںکہتیں کہ باپ مزدور بھی ہو تو اولاد کے لئے بادشاہ ہوتا ہے، میرا باپ مزدور ہی ہوتا مگر میرے پاس تو ہوتا۔ گزشتہ برس میں پاکستان گئی تو اپنی امی جان مرحومہ کے قدموں میں بیٹھے ایکد م الہام ہوا کہ نانی مرحومہ کی قبر پر جاﺅ ۔ ہماری نانی کے انتقال کو بتیس برس بیت گئے ہیں۔مگر ماں کا روحانی اشارہ نانی کے گاﺅں لے گیا۔ ماں بیٹی کا رشتہ بڑا جذباتی ہوتا ہے جبکہ ماﺅں کو اکثر بیٹوں سے محبت ہوتی ہے۔بیٹی سے محبت کا اظہار کرتے ڈرتی ہے کہ ایک دن اس کو دوسرے گھر جانا ہے کہیں لاڈ پیار میں بگڑ نہ جائے ۔اور جب لاڈ پیار کا وقت آتا ہے تو بیٹی پرائے دیس سدھار چکی ہوتی ہے ۔ماں دھی کا دکھ سکھ ساری عمر ”کسک“ بن کر دہکتا رہتا ہے اور کبھی کبھی تو مومنہ کی صورت میں ایسا ناسور بن جاتا ہے کہ ماں بیٹی سے ملنے کے لئے زندگی کے دن گننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ امی جی کی سالگرہ کا دن آتا تو کہتیں علامہ اقبالؒ اور میرا سٹار ایک ہے اور میں ہنس کر کہتی اس دنیا میں دو ہی تو ذہین لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ ہیپی برتھ ڈے امی !بالآخر آپ اپنے عظیم والد کے پاس پہنچ گئیں!اب مت گلہ کیجیئے گا کہ میں یتیم تھی ۔۔۔یتیم تو میں ہوں ۔۔۔!