بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ میں بات میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کی نہیں کر رہا۔ ”میاں“ قائم علی شاہ اور ”میاں“ شرجیل میمن کی کر رہا ہوں۔ قائم علی شاہ کے لطیفوں کے بعد شرجیل میمن بھی سیاسی لطیفوں کے ماہر ہو گئے ہیں۔ یہ لطیفے ویسے ہیں کہ ان کے لئے رونا آتا ہے۔ دل بھی روتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہمارے حکمران ہو گئے ہیں۔ یہ حکمران بھی لطیفے سے کم نہیں۔ اس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے۔ شرجیل میمن کہتے ہیں کہ پاکستان میں چھ سو بچے روزانہ مرتے ہیں۔ سندھ کے تھر میں چھ بچے مر گئے ہیں تو شور مچ گیا ہے۔
یہ کیا دلیل ہے۔ اسے سیاسی دلیل کہا جا سکتا ہے۔ اب سیاسی دلیل کا زمانہ ہے۔ ہمارے معاشرے کو سیاست ہو گئی ہے۔ ایک کرپٹ سیاستدان دوسرے کرپٹ سیاستدان سے کہتا ہے تم نے تین ارب کی کرپشن کی ہے اور تم نے پانچ ارب کی کرپشن کی ہے۔ جھوٹ کے زمانے میں جھوٹے بھی دونوں سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ بھی سچا لطیفہ ہے کہ سیاستدان سچ بول دیں۔ جھوٹ کے عادی سیاستدان بھی سچ کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے پر سچا الزام لگانا ہو تو سچی بات منہ سے نکل جاتی ہے۔ ایک غلطی نااہلی ظالمانہ رویے کی بات ہو تو ہم کہتے ہیں پچھلے دور میں تمہاری حکومت تھی تم نے کیا کیا؟ کسی نے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان کچھ نہ کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے گئے ہیں۔ کسی نے کچھ کیا ہوتا تو ہمارا حال یہ نہ ہوتا۔ قائم علی شاہ اچھل اچھل کر بات کرتے ہیں۔ کارنامے بیان کرنے کے لئے یہ اچھل کود ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی عادت ہے۔ تھر میں کوئی بچہ بھوک سے نہیں مرا۔ غربت سے مرا ہے۔ کاش ”صدر“ زرداری اور بلاول بھٹو زرداری انہیں غربت اور بھوک کا فرق سمجھا دیتے۔ ایک دفعہ حکمران ہونے کے بعد بندہ ہمارے ہاں حکمران ہی رہتا ہے۔ آخر چودھری شجاعت بھی تو سابق وزیراعظم ہیں۔ یہ ہوتا کہ ہمارے کسی صدر کو شرح صدر بھی ہو جاتی۔ ”صدر زرداری“ شاید واحد سویلین صدر تھے جو فوجی صدر سے بھی بڑھ کر بااختیار تھے۔ بلاول مجھے پسند ہے کہ وہ کبھی کبھی کوئی جملہ بہت دلیرانہ اور دلبرانہ انداز میں کہتا ہے۔ اس نے کچھ دن پہلے خواب آلود وزیر منظور وسان اور قائم مقام قائم علی شاہ کو شو کاز نوٹس دیا تھا۔ ایک تو اچھی بات یہ تھی کہ وزیراعلیٰ اور وزیر شذیر کو ایک ہی قطار میں کھڑا کر دیا۔ اچھی بات یہ نہیں تھی کہ کچھ دنوں کے بعد یہ نوٹس واپس لے لیا گیا اور خواب آلود وزیر شذیر منظور وسان کو خود ہی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کو کہا تھا۔ اس نے خلاف معمول سچ بول دیا کہ ساری صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ہیں۔ دونوں کو بلاول نے باعزت بری کر دیا۔ اس سیاسی عدالت میں کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ کسی کی پیشی نہیں ہوئی۔ کیا بلاول کو ”صدر“ زرداری نے مشورہ دیا تھا۔ یا دونوں ”مجرموں“ کی کوئی خاص خدمت یاد آ گئی تھی۔ منظور وسان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ قائم علی شاہ کی کابینہ میں ہیں۔ انہوں نے سچ بولا تو اس سچ پر قائم بھی رہیں۔ لوگ تو اپنے جھوٹ پر قائم رہتے ہیں۔
شرجیل میمن نے بے نیازی یعنی بے پروائی کا رویہ اختیار کیا اور منظور وسان کو منظور کر دیا۔ وہ کچھ شرم کریں۔ آخر منظور وسان ان کے ساتھی وزیر ہیں۔ سندھ حکومت کے لئے شرجیل میمن بے جا اور ناجائز حمایت میں مجرمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کھسیانے چہرے کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ انہیں اندر سے پتہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جھوٹ کی تصدیق کرنا ہمارے وزیروں اور خصوصاً وزیر اطلاعات کا یہ وطیرہ ہو گیا ہے۔ ان کا کام انفارمیشن دینا ہوتا ہے۔ ڈس انفارمیشن نہیں۔ وہ مس انفارمیشن کو پسند کرتے ہیں کہ اس میں مس آتا ہے۔
ایک طرف تھر میں مرتے ہوئے بچے دکھائے گئے دوسری طرف دکھایا گیا کہ ہیلتھ یونٹ وزراءکے زیراستعمال ہیں۔ قائم علی شاہ نے کچھ ڈاکٹروں کو غفلت اور کرپشن کے الزام میں معطل کر دیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں ان کی پسند کے مطابق کہیں اور تعینات کر دیا گیا۔ دس ہزار مویشی بھی مر گئے۔ بچے تو کسی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کوئی بچہ بڑا ہو کر ”صدر“ زرداری بھی بن سکتا ہے اور بوڑھا ہو کر قائم علی شاہ بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کے لئے آنے والی امداد کے مستحق بوڑھے حکمران ٹھہرے۔ گاڑیاں آئیں کہ بچوں کو امیروں کے شہر کراچی میں منتقل کیا جائے۔ ایک گاڑی ڈی سی او کے زیراستعمال ہے اور ایک گاڑی شرجمیل میمن کے زیراستعمال ہے۔ افسران اور حکمران ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ لوگوں کو اذیت اور ذلت میں مبتلا کرنے کے لئے دونوں کی ”خدمات“ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ میں بیورو کریسی کو برا کریسی کہتا ہوں اور پاکستانی ڈیموکریسی کو ڈیمبو کریسی کہتا ہے۔ بیورو کریسی اور ڈیموکریسی دونوں لوگوں کی خدمت کے لئے ہیں مگر؟ فنڈز وزیراعلیٰ اور وزیروں کی عیاشی کے لئے بے دریغ خرچ ہوتے رہے۔ گندم تھر میں پہنچی تو ان میں مٹی بھری ہوئی تھی۔ اس کا ازالہ یہ ہے کہ یہ گندم سندھ کے حکمرانوں کو کھلائی جائے۔ پچھلے دنوں میں وزیراعلیٰ سندھ کہیں گئے تو 39 گاڑیوں کا قافلہ ان کے ساتھ تھا۔ غریبانہ علاقوں میں جانے کے لئے ایسے ہی شاہانہ انداز کی ضرور ہوتی ہے؟ کبھی ”صدر“ کے ساتھ اتنی گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔ قائم علی شاہ کی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اتنے شاہانہ انداز میں نہیں چلتے۔
سندھ کے علاقے میں خیرپور میں خوفناک حادثہ ہوا۔ حادثے میں 58 آدمی مر گئے۔ کوئی ڈاکٹر ہسپتال میں نہ آیا۔ نرسیں اور پیرا میڈیکل کے لوگ اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ ڈاکٹر صبح ہونے کے بعد بھی سوئے ہوتے ہیں۔ جو لوگ صبح کی تذلیل کرتے ہیں۔ صبح جاگنے کا نام ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت وقت 24 گھنٹوں میں کوئی نہیں ہوتا۔ یا پھر آدھی رات کے بعد وقت جسے دنیا کے سب سے بڑے انسان رحمت اللعالمین نے عبادت کی محویت کا معمول کا بنایا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی ہوش نہ آیا۔ ڈسٹرکٹ انتظامیہ لوگوں کی خدمت اور بھلائی کے لئے مامور کئے جاتے ہیں۔
سپیکر سندھ اسمبلی درانی صاحب خاتون ممبر سے پوچھتے ہیں نیلوفر طوفان کو چھوڑو۔ تمہارا نام نیلوفر تو نہیں ہے۔ ورنہ یہ بتاﺅ نیلوفر کہاں ہے۔ سپیکر صاحب کو اپنی رکن اسمبلی کا نام پتہ نہیں ہے۔ یہ نیلوفر طوفان سے زیادہ تباہ کن بات ہے۔ سندھ حکومت میں ایک سے ایک بڑا ”ہیرا“ پڑا ہے جو اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی سندھ حکومت کا جائزہ لیں۔ یہ ان کے والد گرامی کی بنائی ہوئی حکومت ہے۔ وہ یہ حکومت بناتے تو کبھی قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کو حکومت میں نہ رکھتے۔ ایک شہلا رضا ہیں جو باوقار اور بااعتبار ہیں۔ انہیں دوسری بار ڈپٹی سپیکر بنا کر اچھا کیا گیا ہے۔ اور قائم علی شاہ کو دوبارہ وزیراعلیٰ بنا کر اچھا نہیں کیا گیا۔ نئے لوگوں کو بھی آزمایا جائے جبکہ یہ بھی عوام کے لئے آزمائش ہو گی۔