مریم نواز کا فیصلہ

عدالتی ریمارکس کے بعد مریم نواز کے کیس میں چند آ پشن باقی رہ گئے تھے۔ایک تو وزیر اعظم ان کو معزول کر دیں ، دوسرے وہ خود مستعفی ہو جائیں، تیسرے عدالتی فیصلے کا انتظار کریں اور جیسا کہ اس ملک میںہوتا آیا ہے ، فیصلے کے خلاف سٹے آرڈر لے کر اس عہدے سے چمٹی رہیں۔مریم نواز کے لئے ہر راستہ خرابی کا تھا۔سب سے کم تر خرابی کا راستہ یہی تھا جو مریم نواز نے اختیار کیا لیکن وہ بھی واضح استعفے کی صورت میںنہیں، گول مول الفاظ کا استعمال، مگر کان دائیں طرف سے پکڑیں یا بائیں سے، کان پکڑے بغیر چارہ نہیں تھا۔
مریم کو اپنا عہدہ کیوں چھوڑنا پڑا۔ اس کی کئی ایک وجوہ تھیں،ایک تو ان کی تقرری اقربا پروری یا خویش پروری کی ذیل میں آتی تھی، وزیر اعظم کو اس عہدے کی تشکیل اور اس پر کسی کو بٹھانے کااختیار ہو گا مگر وہ میرٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے،انہیں دیکھنا چا ہئے تھا کہ آیا وہ جو تقرری کرنے جا رہے ہیں، اس پر ان کی بیٹی کسی لحاظ سے بھی فٹ ہیں۔ کیا وہ اربوں کے فنڈ کی نگرانی کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں، کیا ماضی میں ان کا ایسے منصب کو سنبھالنے کا کوئی تجربہ ہے، عدالت نے اسی لئے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اپنے باورچی کو ایسے عہدے پربٹھا سکتا ہے، صوابدیدی اختیارات اگرچہ حکمرانوں کو حاصل ہیں مگر آئین میں دیئے گئے مساوی حقوق کی یہ سراسر نفی کے مترادف ہیں۔پاکستان میں جب کبھی تبدیلی آئے گی اور کبھی تو آئے گی تو حکمرانوں کے صوابدیدی اختیارات پر بھی کلہاڑی چلاناپڑے گی۔ صوابدیدی اختیارات کے سب سے بڑے حقدار قائد اعظم تھے اور انہیں اپنی بہن کو کسی اعلی تریںمنصب پر بٹھا دینا چاہئے تھامگر ان کے پاس نہ صوابدیدی ا ختیارات تھے، ا ور ہوتے بھی تو وہ ان کو استعمال نہ کرتے۔ تو کیا بعدمیں آنے والے حکمران بابائے قوم سے زیادہ مقدس ، معتبر اور باوقار ہیں یا وہ خدائے بزرگ و برتر کے مقربین میں شامل ہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں، نہیں جناب ایسا ہر گز نہیں اور شاباش ہماری عدلیہ کو جس نے کسی ایک کیس میں تو ان خدائی اختیارات کا راستہ بند کر دیا۔
میں نے پوری عدلیہ تحریک کے دوران اپنا قلم اس موضوع پر نہیں اٹھایا، لوگ عدلیہ کی تعریف و تحسین کرتے رہے ، میرے نزدیک عدلیہ کی قصیدہ آرائی اگر جائز ہے تو اس پر تنقید بھی جائز ہونی چاہئے ورنہ دونوں صورتوں پر پابندی ہونی چاہئے ۔ا ور تعریف بھی کرنی ہے توا سوقت کریں جب واقعی عدلیہ کوئی تاریخی فیصلہ کرے، قانون کے تحت کرے اور آئین کی بالا دستی کے لئے کرے۔یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ متنازع تھا ، ہے اور رہے گا، بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ متناز ع تھا ، ہے اور رہے گا، جسٹس منیر اور بعد کی عدلیہ کے نظریہ ضرورت کے فیصلے متنازع تھے ا ور رہیں گے۔ مگر میں جس فیصلے پر عدلیہ کی ستائش کرنے جا رہا ہوں وہ ا س اسپرٹ میں ہے کہ اگر رسول خدا ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ چوری کر ے گی تو ا سکے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور آج ایک جج نے ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے ایک وزیر اعظم کی بیٹی کو معزولی کا راستہ دکھا دیا ہے، یہ جرات مندانہ فیصلہ ہے، آئین کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے لئے ہے اور میری دعا ہے کہ ہماری عدلیہ ایسے ہی فیصلے کرے، بلا خوف کرے، بے دھڑک کرے اور ہماری سول بیورو کریسی بھی آئین ا ور قانون کی پیروی کرتے ہوئے حکمرانوں کی لے پالک بننے سے انکار کر دے۔ عدلیہ ایک ا ٓئینی ادارہ ہے، سول انتظامیہ بھی ایک آئینی ادارہ ہے، آئین ان اداروں کو آزاد، غیر جانبدرا ور بالا دست دیکھنا چاہتاہے۔
یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ مریم نے عدلیہ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے، سوشل میڈیا پر ن لیگی ورکروںنے ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے کہ عمران خان عدلیہ کا احترام کرنا نہیں جانتا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ن لیگ نے عدلیہ کی کب سنی ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے عدلیہ نے ایک ڈیڈ لائن دی، ا س سے بچنے کے لئے لیڈر آف دی ہاﺅس اور لیڈرآف اپوزیشن دونوں ملک سے باہر چلے گئے تاکہ عدالت کے سامنے عذر پیش کیا جا سکے کہ باہمی مشاورت نہیں ہو سکی، اس سے پہلے اس عہدے کے لئے ایسے افراد کے نام لیئے جاتے رہے جن کے بارے میں ہر ایک کو پتہ تھا کہ وہ اس وقت تک اس عہدے پر کام کرنے کی حامی نہیں بھریں گے جب تک الیکشن کمیشن کو ہر لحاظ سے آزاد نہ کیا جائے، اسے حکومت اور عد لیہ ا ور انٹیلی جنس اداروں کی دست برد سے محفوظ نہ بنایا جائے۔اور نگران حکومتی سیٹ اپ کو پنکچر لگانے کے اختیارات سے محروم نہ کیا جائے۔
مریم نواز کے فیصلے نے اب ایک راہ ہموار کر دی ہے کہ جتنے لوگوں پر ناحق نوازشات کی گئی ہیں ، ان سے رشتے داریاں نبھائی گئی ہیں، ان کی تقرری میںمیرٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، ان سب کو ایک ہی گٹھڑی میںلپیٹ کر گھروں کو بھیج دیا جائے۔
سب کویاد ہے کہ یہ حکومت آئی تھی تو ا س نے میرٹ کا نعرہ بلند کیا تھا، رنگین اشتھار چھپے کہ اعلی عہدوں کے لئے پاکستان اور بیرون ملک امیدواروں سے درخواستیں طلب کی جائیں گی اور شفاف فیصلے کئے جائیں گے۔ مگر جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس ہوا۔ لاہور میں میٹرو بس کے منصوبے پر ایک منظور نظر کا تقرر کیا گیا۔ ان صاحب نے کبھی چنگ چی رکشہ نہیں چلایا ہو گا، انہیں اربوں کے منصوبے کا نگران بنا دیا گیا۔ پنڈی میٹرو کے ساتھ تو دھاندلی ہوئی، ایسی دھاندلی کی مثال ہی نہیںملتی، ایفی ڈرین کیس کے نامزد ملزم کو الیکشن میں شکست ہو گئی ا ور اسے اس منصوبے کے اوپر بٹھا دیا گیا۔مجھے اپنے دوست سعید احمد بے حد عزیز ہیں، وہ میرے ساتھ گورنمنٹ کالج میں مجلس اقبال اور میگزین راوی میں اکٹھے رہے، ہمیشہ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لیتے رہے لیکن انہیں اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر بنتے وقت کوئی اشتھار، کوئی انٹرویو، کوئی اور جھمیلا نہیں کیا گیا اور ملکی خزانے کے سب سے بڑے منصب سے نواز دیا گیا،احمد سعید دہری شہریت کے حامل ہیں اور یہی قباحت محمد سرور کے ساتھ بھی تھی مگر انہوں نے برطانوی شہریت چھوڑ دی۔ یہ محض ایک دکھاوے کا تکلف ہے ، ورنہ احمد سعید، اور محمد سرور کا گھر بار، بچے اور بچوں کے بچے اور دیگر قریبی عزیز پاکستان سے باہر ہیں اور انہوں نے معین قریشی ا ور شوکت عزیز کی طرح موج میلہ کرنے کے بعد واپس ہی چلے جانا ہے،دہری شہریت والے ا ور لوگ بھی حکومتی مناصب پر براجمان ہیں، پی آئی اے سے شجاعت عظیم کو سابق چیف جسٹس نے فارغ کیا مگر وہ پھر واپس آ گئے، ان کی تقرری میں بھی کسی اشتھار اور کسی انٹرویو کی نوبت نہیں آئی، اور اگرا ٓئی تو کسی کو نظر نہیں آئی۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ صرف مریم نواز کے استعفے پر رک نہ جائے بلکہ میرٹ کی جہاں دھجیاں بکھیری گئی ہیں ، ان تقرریوں کا خاتمہ بالخیر کیا جائے۔ورنہ اکیلی مریم نواز کا کیا قصور!!

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن