عالمی امن کیلئے صدرپیوٹن کی نئی حکمت عملی

شام میں روس کی عسکری مداخلت ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے جو کئی سالوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔اس اقدام سے پہلے پیوٹن نے اندرونی مسائل کو حل کیا؛ مسلح افواج کی کارکردگی کو بہتر بنایا اور قریبی پڑوسی ممالک (Near Abroad) کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے افغانستان سے دہشیگردی کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ روس کابنیادی ہدف ‘‘ سپر پاور کی حیثیت سے عالمی سیاسی افق پراپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے۔’’لیکن اعلانیہ یہ کہا جا رہا ہے کہ: ’’یورپ کودہشت وبربریت سے محفوظ رکھنے کیلئے روس چوتھی مرتبہ کوشش کر رہا ہے۔ پہلی مرتبہ منگولوں سے پھر نپولین سے پھر ہٹلر سے اور اب داعش سے نجات دلانے کیلئے میدان عمل میں ہے۔‘‘
یورپ کی سلامتی یقینی بنانے سے مراد دراصل پیوٹن کی عالمی امن کے قیام کو یقینی بنانے کی کوشش ہے۔ اندرونی محاذ پر انہوں نے چین کیساتھ مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھ کر چار ہزارکلومیٹر طویل سرحد پر تصادم کی فضاکو ختم کرکے اسے ایک بڑی تجارتی منڈی میں بدل دیا ہے۔ مدبرانہ پالیسی‘ مذاکرات اور معاہدوں کے ذریعے اقتصادی پابندیوں اور تیل کے بحران پر قابو پالیا گیا ہے۔ مسلح افواج کو تجدیدی عمل کے ذریعے دنیا کی جدید ترین افواج کے ہم پلہ بنا دیا ہے اور اب روس 20 بلین ڈالر سے زائد کا فوجی سازوسامان بھارت کے ہاتھوں فروخت کر رہا ہے جن میں ایٹمی صلاحیت کی حامل آبدوزیں‘ ایس 400 فضائی تحفظ کا نظام‘ 400 جدید ایم 135گن شپ‘ 127 ساکوئی طیارے اور سمندر سے داغے جانیوالے 500 میزائل بھی ہیں جنہیں چند ہفتے پہلے دوردراز علاقوں میں متعین بحری جہازوں سے فائر کرکے یمن میں اپنے اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت پیوٹن اپنے پڑوسی علاقوں (Near Abroad) میں روس کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں سرگرم عمل ہیں جس کیلئے انہوں نے جارجیا اور کریمیا کو بزورطاقت اپنے ساتھ ملالیا ہے۔ 2004 کے اوائل میں پیوٹن نے ’’ولادی مباحثاتی کلب‘‘ کی چھتری تلے‘ سیاسی ماہرین اور دانشوروں کا ایک بڑا گروپ بنا یا جس کے مشوروں سے ’’مستقبل میں درپیش آنیوالے مسائل اورتصادم کا سامنا کرنے اور پرامن زندگی‘‘ کیلئے منصوبے تیار کئے گئے اور انہیں محرکات کے تحت روسی فوج اب شام میں مصروف ہے لیکن ان کا مقصد شیعہ اور سنی تصادم میں فریق بننا نہیں ہے بلکہ شام اور عراق کو لیبیا اور یمن جیسی صورتحال کا شکار ہونے سے بچانا ہے اور شام کو موجودہ دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل بنانا ہے۔ شام میں اتحادی حکومت کا قیام ممکن بنانے کے بعد بشارالاسد کو دستبردار ہونے کیلئے بھی کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح روس ایک مستحکم حکومت بنانے کیلئے عراق کی جانب رخ کریگا جہاں اتحادی حکومت قائم کرنے کی خاطر وزیراعظم حیدر العبادی کو بھی دستبردار ہونا پڑیگا اور داعش کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی حد تک دو مضبوط ریاستیں وجود میں آجائیں گی جنہیں دوسرے ممالک کی مدد بھی حاصل ہوگی کیونکہ داعش سب کیلئے خطرہ ہے۔ اس طرح پوری دنیا کی تائید سے داعش کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی اس حکمت عملی سے داعش کے علاقوں کا مکمل محاصرہ کرکے اپنے اہداف حاصل کئے جا سکیں گے۔ یہ جنگی حکمت عملی ’’پیوٹن کی پالیسی اور سیاسی سوچ کا تسلسل ہے جس کے تحت روس کی عسکری مہم کو سیاسی کامیابی سے ہمکنار کرنا مقصود ہے۔‘‘
داعش سے نمٹنے کے حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن اسلام کے پہلے دور کی تاریخ سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ 38 ہجری ( 659 عیسوی) میں اسلام کے منحرفین کا ایک ٹولہ جسے ’’خوارجی‘‘ کہا جاتا ہے‘ بنو ہاشم اور بنوامیہ کے درمیان خونیں تصادم کے بعد بالکل داعش کی طرح ابھرا تھا۔ خلیفہ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کیخلاف نہروان کے مقام پر جنگ لڑی جس میں خوارجیوں کو شکست ہوئی۔ بالکل اسی طرح روسی منصوبے کے تحت آج شام اور عراق‘ داعش کے مکمل خاتمے کی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ پیوٹن‘ افغانستان کی صورتحال کا بھی صحیح ادراک رکھتے ہیں۔ آج کابل جن حالات سے دوچار ہے وہ کافی حد تک 1956 ء میں پیش آنیوالے سائیگان کے حالات سے مشابہت رکھتے ہیں‘ غیر ملکی کابل چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ امریکی اور نیٹو فوجی‘ ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات کی جانب سفر کیلئے ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں اور ہزاروں افغانی یورپ کی جانب ایران و دیگر پڑوسی ممالک سے گزر کر ہجرت کر رہے ہیں۔
پیوٹن جانتے ہیں کہ طالبان جنگ جیت چکے ہیں اور عنقریب وہی افغانستان کے حکمران ہوں گے‘ لہذا روس کیلئے ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ مضبوط روابط استوار کرے اور جہاں ضروری ہو انکی مدد کرے۔ شیرخان کی خشک بندرگاہ سے قندوز جانیوالے فوجی اسلحہ و سازوسامان سے بھرے ٹرکوں کا قافلہ طالبان کے حوالے کیا جانا اسی مفاہمت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ روس اور وسطی ایشیائی ممالک کیلئے ان ہزاروں جہادیوں کی اپنے اپنے ممالک کو واپسی کا مسئلہ بڑی تشویش کا باعث ہے جو آج طالبان کے ہم قدم ہو کر جہاد میں شامل ہیں۔ ان جہادیوں کی اپنے ملکو ں کو واپسی طالبان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان کے 150,000 کے قریب قبائلی جو افغانستان میں مقیم ہیں‘ حکومت کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد انہیں وطن واپس لانے کا مسئلہ ہے۔ یہ فیصلہ مشکل ضرورہے لیکن اس سے نہ صرف پاک۔ افغان سرحدپر امن قائم ہوجائیگا بلکہ افغانستان سے ملحقہ ممالک میں قیام امن کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ پیوٹن کہتے ہیں: ’’عالمی سیاست میں امن کو کبھی استحکام نہیں رہا۔ امن کو ایک ایسی غلطی کا نام بنا دیا گیاہے جس کا دوام انتہائی مشکل ہے۔ لہذا دیرپا امن کا قیام صرف جنگ کیلئے تیار رہنے سے ہی مشروط ہے۔‘‘ پیوٹن نے ماضی کی سردجنگ کے دور کو عالمی امن کے سنہری دور سے تشبیہ دیتے ہوئے سرد جنگ کے نئے دور کے آغاز کی نویدبھی سنائی جو ’’ذرا مختلف نوعیت‘‘ کا دور ہوگا۔ روس نے شام میں عسکری مداخلت سے ایک ماہ قبل ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کے ساتھ وسطی ایشیاء میں اپنی عسکری قوت کا مظاہر ہ کیا اور پھر مضبوط تجارتی و اقتصادی اقدامات سے سرد جنگ کے نئے دور کے ابھرنے کو حقیقت کا ایک نیا رنگ دیا ہے۔ یہ نیا رنگ اقتصادی تعاون‘ تجارت اور معیشتی تدبیروں کا نام ہے۔ روس شنگھائی تعاون آرگنائزیشن (SCO) کا اہم ممبر ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بیلاروس کے وزیراعظم پاکستان کے دورے پر ہیں اور اہم تجارتی معاہدوں پر دستخط ہورہے ہیں۔ دو بلین ڈالر سے زائد لاگت کا ایران کی سرحد سے لاہور تک گیس پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ روس‘ چین‘ پاکستان‘ ایران اور افغانستان کے درمیان نئے اقتصادی زون کے قیام کے سلسلے میں نہایت اہم پیش رفت ہے۔ سعودی عرب سے تیل کے معاہدے کا مطلب روس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہے اوراس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو واشنگٹن کیساتھ تعلقات کے حوالے سے سردمہری کا احساس ہے۔ اس طرح روس اب مشرق وسطی میں دھماکہ خیز انداز سے داخل ہوچکا ہے۔
نئی سرد جنگ کے خدوخال پچھلی سرد جنگ سے مختلف ہیں کیونکہ پچھلے دور میں امریکہ نے عسکری اتحادوں اور دنیا بھر میں عسکری ٹھکانے قائم کرکے مفادات حاصل کئے تھے اور عسکریت غالب رہی لیکن افغانستان اور عراق میں شکست کے بعد امریکہ نے اپنے تذویراتی مرکز (Strategic Pivot) کو اس خطے سے جنوب مشرق کی جانب منتقل کرکے اسٹریلیا‘ برونائی‘ کینیڈا‘ چلی‘ جاپان‘ ملائیشیا‘ میکسیکو‘ نیوزی لینڈ‘ پیرو‘ سنگاپور اور ویتنام کے درمیان قائم ہونیوالا بین البحری شراکتی (Trans-Pacific Partnership) معاہدہ (TPP) بنایا ہے‘ جس کا مقصد چین کی اقتصادی ناکہ بندی (Economic Siege) کرنا ہے۔ اسی طرح امریکہ‘ بھارت کے ساتھ مل کر بحرہند کے ساحلی ممالک کے مابین (Indian Ocean Rim Countries Partnership معاہدہ (IORCP) بنا رہا ہے۔ چین نے اسکے جواب میں 16 مجوزہ ممالک کے درمیان آزاد تجارتی شراکتی اتحاد قائم کیا ہے جسے Regional Comprehensive Economic Partnership (RCEP) کانام دیا گیا ہے۔‘‘ اس طرح جغرافیائی و اقتصادی عالمی نظام کا نقشہ نئے ابھرتے ہوئے جغرافیائی و تذویراتی نظام کے خدوخال میں حقیقت کا رنگ بھرتا دکھائی دے رہا ہے جو پیوٹن کی پیش کردہ اس منطق کے عین مطابق ہے کہ:
’’امن اور پرامن زندگی ہمیشہ سے ہی انسانیت کی اولین خواہش رہی ہے لیکن عالمی سیاست میں امن کو کبھی استحکام نہیں رہاہے اس لئے ہم مستقبل میں دنیا کو تصادم سے دور رکھنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں اور امن کیلئے کمر بستہ ر ہتے ہوئے جنگ کیلئے بھی تیار ہیں۔‘‘

ای پیپر دی نیشن