حضور اکرم(ﷺ) رب العزت کی بارگاہِ عالیہ میں دستِ دعا دراز کرتے سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ جسطرح تو نے میری ظاہری شکل و شباہت کو حسین و دلنواز بنایا اسی طرح میری خُلقْ کو بھی حسین و جمیل بنا دے۔ امام احمد اور ابن حبان نے یہ دعاء بھی روایت کی ہے۔ ’’اے اللہ میرے اخلاق کو دلکش و زیبا بنا دے کیونکہ خوبصورت اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی فرماتا ہے‘‘۔ ہم عام طور پر خُلقْ کے سرسری تصور سے آشناء ہیں، محض خندہ پیشانی، خوش طبعی اور مسکراہٹ سے مل لینے کو اخلاق گردانتنے ہیں۔ ’’خُلقْ‘‘ کا معنی و مراد اپنے ذیل میں بڑی گہرائی رکھتا ہے۔ لغتِ عرب کے مشہور امام علامہ ابن منظور کہتے ہیں۔ خُلقْ اور خَلقْ کا معنی فطرت اور طبیعت ہے۔ انسانی کی باطنی صورت کو اور اسکے مخصوص اوصاف و معانی کو خُلقْ کہتے ہیں اور اس کی ظاہر ی شکل میں صورت کو خُلقْ کہتے ہیں۔ علامہ یوسف الصالحی الشامی کہتے ہیں۔ حسن خُلقْ کی حقیقت وہ نفسانی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے افعال حمیدہ اور آداب پسندیدہ ہے عمل کرنا بالکل آسان ہو جاتا ہے اور یہ چیزیں (انسان) کی فطرت بن جاتی ہیں۔ امام محمد غزالی نے بڑی ہی خوبصورت وضاحت کی ہے ’’خُلقْ نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنچانے میں کسی سوچ و بچار اور تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی یعنی وہ اعمال جو کسی سے اتفاقاً سرزد ہوتے ہیں یا کسی وقتی جذبہ اور عارضی جوش سے صادر ہوئے ہوں، خواہ کتنے ہی اعلیٰ و عمدہ ہوں انہیں خُلقْ نہیں کہا جائے گا۔ خُلقْ کا اطلاق ان خصائل حمیدہ اور عادات مبارکہ پر ہو گا جو پختہ ہوں اور جن کی جڑیں قلب و روح میں بہت گہری ہوں۔ ایسی محمود عادتیں فطری اور وہبی بھی ہو سکتی ہیں اور مسلسل تربیت، اکتساب اور صحبت صالحین کا نتیجہ بھی۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ انسان کی سرشت میں اس طرح رچ بس گئی ہوں جیسے پھول میں خوشبو اور آفتاب میں روشنی۔ حسنِ خُلقْ میں مندرجہ ذیل امور کو شامل کیا جاتا ہے انسان بخل و کنجوسی سے پرہیز کرے جھوٹ نہ بولے دیگر اخلاق مذمومہ سے بچا رہے۔ لوگوں سے ایسا کلام کرے اور ایسے کام کرے جو پسندیدہ ہوں کشادہ روئی کے ساتھ سخاوت کرے۔ اپنوں بیگانوں سے خندہ پیشانی سے ملے۔ تمام معاملات میں لوگوں کی سہولت پیشِ نظر رکھے سب سے درگزر کرے اور ہر مصیبت پر صبر کرے۔ اللہ نے اپنے محبو ب کے خُلقْ کے بارے میں فرمایا۔ ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خُلقْ کے مالک ہیں (القلم) اس آیت میں ’’علی‘‘ کا حرف اظہار غلبہ کیلئے ہے۔ اگرچہ یہ امور مشکل ہیں اور ہر موقع پر ان پر عمل پیرا ہونا آسان نہیں لیکن اللہ کے محبوب بڑی سہولت اور آسانی سے تمام حالات میں ان پر عمل پیرارہتے ہیں۔
خُلقِ عظیم (صلی اللہ علیہ وسلم)
Nov 14, 2016