ایک غیر معمولی انتخابی مہم کے بعد امریکہ کا صدارتی انتخاب ۲۰۱۶ءمکمل ہوا ۔ امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ غیر متوقع ‘ حیران کن اور دنیا بھر کیلئے بہت حد تک ناپسندیدہ برآمد ہوا۔ نئے منتخب امریکی صدر مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے جس طرح اپنی انتخابی مہم میں اپنی ترجیحات کو کھول کرامریکی رائے دہندگان اور دنیا بھر کے سامنے رکھا ان کو سن کرامریکہ کے اندر اور دنیا بھر میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی اور دنیا میں یہ خیال پیدا ہوا کہ امریکہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار مسز ہیلری کلنٹن جو متوازن‘ معتدل اور متحمل مزاج کی حامل ہیں بڑے فرق سے اپنے حریف کو شکست دیں گی جو غیر متوازن اور انتہا پسند شخصیت رکھتا ہے۔ لیکن نتیجہ برعکس آیا اور دنیا میں اکثر اقوام نے اس امریکی انتخاب کو بطور حادثہ محسوس کیا۔ اس انتخاب کی تکمیل میں بعض حقائق بڑے حیران کن اور قابل غور ہیں۔ امریکہ میں موجود تمام ہندو امریکی ووٹرز نے اور تمام صیہونی(یہودی) ووٹرز نے مسٹر ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔ نومنتخب صدر امریکہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں مزید مسلمانوں کی آمد کو پسند نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں وہ تمام مسلم دنیا کیلئے اپنا مخصوص نظریہ رکھتے ہیں جس میں سرد مہری ہے اور کسی حد تک اسلامی دنیا سے بیزاری اور اکتاہٹ بھی دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کا مفلس پڑوسی میکسیکو ایک عرصہ سے امریکہ کیلئے ایک مسئلہ ہے۔ میکسیکو کی طویل سرحد امریکی سرحد کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ غریب میکسیکن مزدور چوری چھپے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں تاکہ امریکی ڈالر کما کر اپنا معیار زندگی بلند کریں اور غربت کی دلدل سے نکلیں۔ یہ غربت ایسی بلا ہے کہ دنیا کی اکثر آبادی اس مفلسی سے خوفزدہ ہو کر امیر ممالک کی طرف محو سفر رہتی ہے۔ جب امیر ممالک ویزے نہیں دیتے تویہ معاشی سفر جائز شکل کو چھوڑ کر ناجائز راستے اختیار کر لیتا ہے اور ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود دنیا میں سفر جاری رہتا ہے۔ ہمارے پاکستانی جو ڈالر‘ ریال اور درہم و دینار کے تعاقب میں رہتے ہیں وہ ایسے سفر کے عذاب بخوبی جانتے ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ میکسیکو اور امریکہ کے درمیان ایک دیوار تعمیر کریں گے تاکہ میکسیکو کی غریب آبادی کو غیر قانونی انداز میں امریکہ آنے سے روکا جائے اور بقول ان کے اس دیوار کا مکمل خرچ میکسیکو سے وصول کیا جائے گا۔ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کا پہلا پیغام اپنے پڑوس میں خوف اور اذیت کے ساتھ وصول کیا گیا ہے۔ یہی امریکہ کسی زمانے میں یورپ کی دیوار برلن کو مسمار کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہا اور آخر کار دیوار برلن گرا دی گئی جبکہ آج امریکہ خود براعظم امریکہ میں ایک نئی ”دیوار میکسیکو“ تعمیر کرنے جا رہا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔کبھی طاقتور امریکہ دیوار گراتا ہے اور کبھی تعمیر کرتا ہے تاکہ اﷲ کی مخلوق امریکہ کی پسند کے مطابق زندگی بسر کرے‘ اﷲ کیا پسند کرتا ہے؟ انتظار اور ابھی اور ابھی اورابھی۔سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ تمام اندازوں اور تبصروں کے برعکس کس طرح امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے؟ تو اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکی انتخاب کے پس پشت صرف جمہوریت ہی کارفرما نہیں ہوتی کچھ ”اور“ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وقت کی ضرورت کے مطابق مسٹر ٹرمپ لائے گئے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکی ڈیموکریٹ وہ پہلے بہادر سیاستدان ہیں جنہوں نے امریکی رنگدار یا حبشی شخص کو آگے لا کر امریکہ کا صدر بنا دیایہ ایک غیر روایتی اور انقلابی فیصلہ تھا اور اس جرات کو سفید فام نسل پرست امریکیوں نے سخت ناپسند کیا اور ڈیموکریٹ پارٹی سے وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ گدھے کا نشان رکھنے والی سیاسی جماعت نے ایک اور انقلابی قدم اٹھایا اور اس نے پھر روایت توڑتے ہوئے پہلی دفعہ ایک خاتون امیدوار کو امریکہ کی صدارت کا اہل سمجھ کر اسے صدر امریکہ بنانے کی کوشش کی۔ موجودہ صدارتی انتخاب کے نتائج نے یہ ثابت کیا ہے کہ امریکہ خود اندر سے ایک تقسیم شدہ ملک ہے۔ سفید فام نسل پرست متعصب کا امریکہ‘ غلاموں کی نسل کا رنگدار امریکہ ‘ یہودی اور صیہونی سرمایہ دار کا امریکہ اور منتشر ذہن رکھنے والے تارکین وطن کا امریکہ‘ اسی سوچ نے ایک ایسا صدر منتخب کیا ہے کہ جس کی آمد سے خود امریکہ خوفزدہ ہے۔ اسلامی دنیا حیرت زدہ اور متفکر ہے۔ یورپ گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے اور براعظم امریکہ میں اس کے پڑوسی تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایک عجیب صدارتی الیکشن نے امریکہ کی دریا دلی اور جمہوریت کی کامیابی کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔امریکہ ایک نسل پرست سفید فام ملک بن گیا ہے اور جمہوریت نے امریکہ کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی ہے جو سفید فام نسل پرست ہے۔۱۹۰۰ میل سے زیادہ طویل سرحد پر پڑوسی میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ تارکین وطن کو امریکہ سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں اور حبشی امریکن کو اس نے نفرت آلود بنا دیا ہے اور یہ طبقات امریکہ میں غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ وہ نیٹو کے رکن ممالک سے اخراجات لینا چاہتا ہے۔ بصورت دیگر وہ ان ممالک سے فوج واپس بلا لے گا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مستقبل میں کیسے رہیں گے؟ حالانکہ صحیح سوال یہ ہے کہ عالم اسلام مستقبل میں امریکی افواج اور جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کس انداز میں کرے گا؟ ابھی مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ وائٹ ہا¶س منتقل نہیں ہوئے لیکن ان کے خلاف امریکہ میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور شاید یہ حادثہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ امریکہ کے اندر خود امریکی مظاہرین نے امریکن جھنڈا نذر آتش کیا ہے اور لوگ یہ نعرے لگاتے رہے ہیں کہ ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔ بہرحال اس امریکی صدارتی انتخاب میں امریکہ ‘ جمہوریت اور امریکن وطن پرست عوام عملی طور پر شکست کھا گئے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ جیت کر امریکہ کے صدر بن گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ترتیب کے لحاظ سے امریکہ کے پینتالیسویں صدر ہیں۔ ۴۵ کا حاصل جمع ۹ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۶ءکا حاصل جمع بھی ۹ ہوتا ہے۔ دنیا میں ۱۱/۹ ایک حادثہ ہوا جس نے پوری دنیا میں تباہی پھیلائی۔ اب امریکی انتخاب کا نتیجہ ۹ نومبر کو آیا یعنی اب ۹/۱۱ کو امریکہ کا نیا صدر چنا گیا ہے۔ سوچنا یہ ہو گا کہ کیا ۹ کا ہندسہ دنیا کے امن کے لئے خطرناک ہے؟ کیا امریکی ریاست ٹوٹ رہی ہے؟ کیا دنیا میں ایک نئی صلیبی جنگ کا آغاز ہو رہا ہے یا تیسری عالمی جنگ شروع ہو رہی ہے؟؟