جمہوری ریاستوں میں عوام کو اپنی مرضی کے لوگو ںکو منتخب کر کے اقتدار کے منصب پر بٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔اور دنیا بھر میں جہاں جمہوریت مضبوط ہے۔ وہاں ہمیشہ الیکشن ہارنے والے جیتنے والے کو مبارک باد دیتے ہیں۔اور پھر ملک کے بہترمستقبل کے لیے مل کر کام کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔اسی لیے ان ملکو ں نے خوب ترقی کی ہے ۔حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں وہاں جمہوریت کا سفر چلتا رہتا ہے ۔بلکہ جنگ کے زمانے میں بھی یہ ملک جمہوری سسٹم جاری رکھتے رہے ہیں۔ امریکی انتخابات میں ہمیشہ ہی پر امن ووٹنگ ہوتی رہی ہے ۔اور الیکشن کے بعد جیتنے والوں کو بخیر و خوبی اقتدار سونپ دیاجاتا رہا ہے ۔مگر اس بار ٹرمپ کی فتح کا اعلان امریکیوں کے لیے بلکل ہی غیر متوقع تھا ۔بلاشبہ اس میں زیادہ کردار ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی ہے ۔جونہ صرف ایک متنازعہ شخصیت ہیں ٟبلکہ وہ بہت سے متنازعہ بیانات بھی داغتے رہے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ الیکشن کمپین سے لے کر صدارتی ڈیبیٹس اور میڈیا ہر جگہ ہیلری کی جیت کی باتیں تھیں۔اس لیے الیکشن نتائج کے بعد جو عوامی ردعمل سامنے آیا ہے ایسا رد عمل امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا ہے ۔اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی ۔مگر ایک وجہ یہ بھی ہو گی کہ ڈونلڈٹرمپ نے بھی تو کہا تھا کہ اگر نتائج ان کے حق میں نہ آئے تو وہ سڑکوں پر ہوں گیااب الیکشن میں ان کی فتح کا اعلان تو ہو گیا ہے مگر اب ان کے مخالفین ان کی جیت کو ماننے سے انکاری ہیں۔جو انہوں نے سوچا تھا اب وہ ان کے مخالفین کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے اعلانات کے ساتھ ہی امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ہزاروں افراد نے سڑکوں کو بلاک کرنا شروع کیا ہوا ہے ۔اور وہ کسی طور پر بھی ٹرمپ کو صدر قبول نہیں کر رہے ہیں۔مظاہرین ٹرمپ نا منظور کے نعرے لگا رہے ہیں۔اور اس کے ساتھ ہی امریکی پرچم بھی جلائے جا رہے ہیں۔ صرف ایک شخص کی پالیسوں کی مخالفت میں امریکی پرچم جلایا جانا یقینا امریکی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا ۔ کہیں مظاہرین پولیس پر کریکر ز پھینک رہے ہیں۔کہیں کہیں آگ بھی لگائی گئی ہے ۔ان مظاہرین میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی دکھائی دے رہی تھی۔ پولیں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کر رہی ہے ۔بہت سے مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے ۔دوسری طرف نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ سب کچھ میڈیا کا کیا دھرا ہے ۔میڈیا جان بوجھ کر متشدد لوگوں کو دکھا رہا ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والے یہ مظاہرے ناانصافی پر مبنی ہیں۔ جس سے اور بہت سے لوگ اس کام میں شامل ہو رہے ہیں۔امریکہ میں اس وقت جنگ کا سا ماں لگ رہا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ نئے صدر کی پالیسیاں امریکہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہوں گی۔
امریکی اقلیتوں کی جانب سے یہ واضع طور پر کہا جارہا ہے ۔کہ ٹرمپ کی فتح کے اعلان کے ساتھ ہی نسل پرست اور متعصب لوگ اور بے باک ہو تے جائیں گے ۔بحرہال امیدہے یہ مظاہرین کچھ دنوں تک خاموش کرادیے جائیں گے اور پھر امریکہ کے متنازعہ ترین صدر اپنی پالیساں چلاتے نظر آئیں گے ۔ مسلم ملکوں کے گرد گھیرا اور تنگ کیا جائے گا ۔پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ زیادہ شدت سے کیا جائے گا ۔ہمارے حکمران اگر ہمت اور تدبر سے کام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ یا کسی بھی طاقت کے ساتھ برابری کے ساتھ بات نہ کر سکیں ۔ جس طرح کے سخت بیان نو منتخب صدر الیکشن کے دنوں میں دیا کرتے تھے ۔ان بیانات کی روشنی میں ان کے حامی ابھی سے سرگرم ہو گئے ہیں۔غیر ملکیوں سے نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے ۔تعصب اور نفرت کے اظہار کے لیے دیواروں پر وال چاکنگ کی جارہی ہے ۔اپنے ملک واپس چلے جاو ٟامریکہ کو پھر سے عظیم ملک بنائیں گے اور امریکیوں نے سفید فام کو اپنا صدر منتخب کر کے واضع پیغام دے دیا ہے ۔امریکہ میں پھیلنے والے اس تشدد سے تعلیمی ادارے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ امریکہ میں پہلے ہی بہت برا سلوک ہوتا رہا ہے ۔مگر میڈیا میں ایسے واقعات کو بہت کم دکھایا جاتا رہا ہے ۔
بلغاریہ کی ایک نابینا خاتون بابا نانگا جو 1996 میں فوت ہو گئی تھیں۔اپنی زندگی میں بہت سی پیش گوئیاں کر گئی تھیں۔بابا نانگا نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکہ کا 44 کامیاب صدر سیاہ فام ہوگا او ر وہ آخری کامیاب امریکی صدر ہوگا ۔ اب پتہ نہیں ان کا کہنا تھا کہ آخری سیاہ فام صدر ہوگا یا کچھ اور ؟ یہ وقت ہی بتائے گا ۔انہوں نے کہا تھا کہ اس سیاہ فام صدر کے بعد آنے والے نئے صدر کے عہد میں امریکہ اور امریکی معیشت بری طرح متاثر ہوگی ۔جس سے خطے میں نفرت اور تشدد کی فضا سے بچنا ناممکن ہو جائے گا ۔یاد رہے کہ نائن الیون اور سونامی جیسی پیش گوئیاں بھی بابا نانگا نے ہی کی تھیں۔ سویت یونین ٹوٹنے ، چرنوبل کے ایٹمی بجلی گھر میں حادثے، اسٹالن کی موت اور روسی آبدوز کی سمندر میں غرق ہونے کی پیش گوئیاں بھی ان سے منسوب ہیں۔ 1989ء میں ان کا ایک جملہ اخبارات کی زینت بنا تھا جس میں اس نابینا خاتون نے کہا تھا کہ دشت دشت امریکیوں پر فولادی پرندوں سے حملہ ہوگا ۔بھیڑیئے غرا رہے ہوں گے ۔اور معصوموں کا خون بہہ رہا ہو گا ۔ بھیڑیوں کی غراہٹ ہم افغانستان میں امریکی بمباری سے بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔جب امریکی جہاز افغانستان کی شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہے تھے اور اس وقت کے امریکی صدر کس قہر سے بات کرتے تھے۔ یہ کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔اب دیکھتے ہیں بابا نانگا کی ان حالات کے تحت کی گئی پیش گوئی کیارنگ دکھاتی ہے۔