شہزادہ محمد اکبر (نامہ نگار چنیوٹ)
چنیوٹ ایک تاریخی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ برادری کا مسکن تھا ۔قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں شیخ برادری کے سماجی کاموں کا بھی بہت بڑا حصہ رہا اور اب بھی ہے قیام پاکستان سے پہلے یہاں کی شیخ برادری کلکتہ میں آباد تھی ۔شیخ عمر حیات جو کہ ٹرانسپوٹر ،شپ بروکر اور پراپرٹی ڈیلر ا کاروبار کلکتہ میں کرتے تھے دولت کما کر چنیوٹ آئے محلہ کلکتی میں مقیم ہوئے- پنڈی بھٹیاں میں مقیم اپنی فیملی کی خاتون سے 1920 میں شادی کر لی جس سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی۔بیوی کا نام فاطمہ بتایا جاتا ہے -1921 سے1930تک دس سال میں چار لاکھ روپے کی لاگت سے چودہ مرلہ زمین پر پانچ منزلہ شاندار تاریخی محل تعمیر کرادیا - قیمتی بیار کی لکڑی تعمیر میں استعمال کی گئی، چنیوٹ کے مشہور پرجہ خاندان کی سرکردہ شخصیت الہی بخش سے محل کارنگ کراکراُسے دلکش بنادیا ۔تین چھتیں لکڑی کے خوبصورت کام سے سجائی گئیں تھیں کھڑکیاں جھروکے دروازے زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے لکڑی کا محل بھی کہا جاتا ہے-
محل کی تعمیر مکمل ہونے کے پانچ سال بعد شیخ عمر حیات دار فانی سے کوچ کرگئے-محل کی تعمیر سے بچنے والی رنگین ٹائلیں آج بھی انکی قبر پر دلکش منظر پیش کر رہی ہیں 1938میں انکے بیٹے گلزار احمد کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی جس میں پورے شہر کو دعوت پر بلایا گیاتھا ۔مگر شادی کی ایک ہی رات اس کے نصیب میں آئی- باتھ روم میں کوئلے کی انگیٹھی جلا کر رکھی گئی تھی مگر کوئلے کی گیس اسکے انتقال کا سبب بن گئی - اُسے اسی محل میں نماز جنازہ کے بعد دفن کردیا گیا - جوان بیٹے کی موت پر ماں فاطمہ پر سکتہ طاری رہا ایک سال بعد وہ انتقال کر گئیں وصیت کےمطابق اُس کی میت اُس کے بیٹے کے پہلومیں دفن کی گئی - بعدازاں میاں محمد امین سہگل شیخ کی قیادت میں اس محل کو یتیم خانہ میں تبدیل کرکے یتیم بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بنادیاگیا- محل میں کچھ عرسہ ماچھی ،کھوکھر برادری کے لوگ بھی مکین رہے _ 1990میں ثقافت کو تحفظ دینے کیلئے حکومت نے ڈی سی جھنگ اطہر کو محل کو سرکاری قبضہ میں لینے کاحکم دیا
جنہوں نے یتیم خانہ ختم کیا اور دیگر قوموں کے بسنے والے لوگوں سے خالی کروادیا۔- محل میں لائبریری اور میوزیم قائم کر دیا گیا- 1974 میں اس پانچ منزلہ عمارت کو زلزلوں کے خطرے اور لکڑی کی خستہ حالی سےدو منزلوں کو گرا دیا گیا
جس سے محل کی منزلیں گرتی گئیں مگرآج تک قیمتی آثاثے نظروں سے اوجھل ہیں بتایا جاتا ہے کہ اس محل کے قیمتی اور خوبصورت دروازے کھڑکیاں غائب ہوتی رہیں -کئی سال سے مرمت کی آڑ میں لاکھوں روپے ہڑپ ہوتے چلے آ رہے ہیں
اب وہاں صرف ایک لائبریری اور میوزیم ہے ۔میوزیم میں 200 سالہ پرانا قرآنی نسخہ اور تحریک کشمیر کے پہلے شہید میاں شیخ الہی بخش جو تحریک کشمیر 1931میں دریائے جہلم کو عبور کر کے میرپور میں داخل ہوئے کو ڈوگرہ راجہ کے انسپکٹر نے چھپ کر وار کر کے شہید کر دیا تھا ان کی قمیض خنجر اور اللہ اکبر کے نام سے موسوم جھنڈا محفوظ ہے-