کراچی(آئی این پی)چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کی ناکامی کو جمہوریت سے نتھی نہیں کیا جاسکتا ،قوموں کی بھلائی کے لئے جمہوریت ہی بہتر نظام ہے ،آئین کے بغیر ملک اور ملک کے بغیر آئین نامکمل ہے ، احتساب سب کا ہونا چاہئے ،کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے اور مجھ سمیت جو بھی کرپشن کریں اسے قرار واقعی سزا دی جائے ،انہوں نے کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ موجودہ احتساب قانون میں ترمیم کی بات کی جارہی ہے ،موجودہ احتساب قانون درست ہے اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، سال سے یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ صدارتی نظام ہونا چاہیے یا پارلیمانی ،لیکن دور امریت میں صدارتی نظام کا بھی تجربہ کیا گیا جو 1962 میں دور ایوب میں ناکام ہوا ،صدارتی ملک کے مفاد میں نہیں اس سے بظاہر مرکز مضبوط نظر آتا ہے ،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور صوبوں کو مضبوط کئیے بغیر نا ملک مستحکم ہوسکتا ہے نہ ہی نظا م طویل عرصے تک چل سکتا ہے۔ انگلش سپیکنگ یونین آف پاکستان کے تحت تقریب سے خطاب میں رضا ربانی نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے ،کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہئیے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ اسمبلی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور اس سے قبل جو اسمبلی 2008 میں وجود میں آئی تھی اس نے اپنی مدت پوری کی ،انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ حکومتوں کے قیام کے لئے آئین میں دئیے گئے طریقے کار وضح ہیں ،کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں، یہ بات درست ہے کہ ذوالفقار بھٹو ملک کے سول مارشل لاایڈمنسٹریٹر تھے،لیکن کیوں کہ اس وقت ملک میں مارشل لائ نافذ تھا اس لئے حکومت سنبھالنے کے لئے مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنا ضروری تھا،من پسند لوگوں کو اقتدار میں لانے کے لئے ایک سابق آمر نے ملک میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لئے گریجویشن کی شرط عائد کی تھی جو کسی طرح مناسب نہیں ہے ،کیونکہ کراچی اور سندھ میں جو انتخابات ہوتے ہیں اس میں ہر کسی کو حصہ لینے کی آزادی ہونی چاہیے، ملک میں سول اور ملٹری بیورو کریسی کا ہمیشہ کنٹرول رہا اور بیورو کریسی خود کو سب سے زیادہ مضبوط سمجھتی ہے ،لیکن جمہوری نظام میں آئین ،پارلیمنٹ بالا دست ہے، کسی این آر او کی کو ئی گنجائش نہیں جس نے بھی جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہئیے ،ہماری بد قسمتی ہے کہ ملک میں دو قوانین چل رہے ہیں ،بڑ ے آدمی کے لئے قانون اور ہے اور چھوٹا آدمی کوئی جرم کرے تو اسے فورا گرفت میں لے لیا جاتا ہے ،انہوں نے کہا کہ بعض مواقوں میں ملک کی عدلیہ نے فوجی مداخلت کو جائز قرار دیا جو کسی طرح درست نہیں ،ایک آمر نے اپنے پاس سی ای او آرمی چیف اور صدر مملکت کے عہدے اپنے پاس رکھے ،بلکہ وہ اس سے بڑھ کر تینوں مسلح افواج کے سربراہ بھی بن گئے تھے یہ کسی طرح قابل قبول نہیں، ہماری ملک میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب بھی کوئی منتخب حکومت اقتدار میں آئی اسے یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی اور حکومت کو آزادانہ کام کرنے نہیں دیا گیا ،لیکن 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد کافی صورتحا ل میں بہتری آئی ہے اور تمام اداروں کی حدود مطمئن کردی گئی ہے ،یہ بھی کوشش کی جا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو ناکام بنایا جائے،لیکن ایسی سوچ رکھنے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔
احتساب قانون میں تبدیلی بدقسمتی ، میرے سمیت جوبھی کرپشن کرے سزا دی جائے : چیئر مین سینٹ
Nov 14, 2017