نومبر میں معروف نغمہ نگار تنویر نقوی اور فوک سنگر کی برسی تھی۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء میں وفات پا گئے۔ دونوں کا تعلق صوت و صدا کی دنیا سے تھا۔ دونوں سے میری ملاقاتیں رہیں۔ تنویر نقوی کا اصل نام سید خورشید علی ہے۔ انہوں نے فلموں کے سیکڑوں مقبول نغمات تخلیق کیے جن میں کوئل، شام ڈھلے، دوستی، جھومر، گھونگھٹ اور چنگاری اہم ہیں۔ تنویر نقوی اسی زبان میں گیت لکھتے جو زبان فلم میں بولی جاتی۔ اُن کے آنے سے مکالموں اور گیتوں میں ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ انہوں نے فلمی گیتوں میں زبان کے ساتھ تشبیہات اور استعارات کی داغ بیل بھی ڈالی:۔؎
آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے
آ رات جا رہی ہے
یوں جیسے چاندنی کی بارات جا رہی ہے
چلنے کو اب فلک سے تاروں کا کارواں ہے
فلم ’’عذرا‘‘ میں فارسی زبان کی ایسی تراکیب اکٹھی کی گئیں جو اردو زبان میں بھی رائج ہیں۔ مثلاََ جان بہاراں، رشک چمن۔تنویر نقوی میں بچوں جیسی معصومیت، ماؤں جیسا پیار، درویشوں جیسی سادگی، درختوں جیسی فیاضی اور فاختاؤں جیسی امن پسندی تھی۔ پاکستان تھیٹر کی ابتدا تنویر نقوی کے لکھے کھیل ’’نیا دور‘‘ سے ہوئی تھی۔ پاکستان کا یہ پہلا کھیل ایک ہفتہ رٹز سینما، ایک گوالمنڈی میں اور ایک ہفتہ چھاؤنی میں چلتا رہا۔ اس کھیل میں ملکہ ترنم نور جہاں کی بڑی ہمشیرہ عیدن بائی کا اہم رول تھا۔ وہ ہر شو میں چھ گانے بغیر سپیکر کے گاتیں اور بلند آواز میں لمبے لمبے مکالمے بولتیں۔ ان تین ہفتوں میں تنویر نقوی اور عیدن ایک دوسرے میں اتنی دلچسپی لینے لگے کہ تیسرے ہفتے کے اختتام پر رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔ تنویر نقوی فضول رسم و رواج، بے جا تکلفات، اونچ نیچ اورذات پات کے جھمیلوں سے دور بھاگتے تھے۔ سادات کے بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود خود کو ’’سید‘‘ نہیں کہلواتے تھے۔ کچھ دن اپنے عزیز وں کے پاس مزنگ میں رہنے کے بعد شاہ جی (تنویر نقوی) اپنی بیگم عیدن کو ساتھ لے کر بازار حکیماں چلے آئے اور کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرلی۔ ملکہ ترنم بھی وہاں آنے جانے لگیں۔ تنویر نقوی نے فلمی شاعری کے علاوہ ادبی شاعری بھی کی۔ ان کے دو مجموعے ’’نے‘‘ اور ’’سنہرے سپنے‘‘ شائع ہوئے۔
ریشماں کو صحرائی بلبل کے خطاب سے نوازا گیا۔ ان کے گائے ہوئے گیت ان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ریشماں کے بے شمار گیت مقبول ہوئے۔ ریڈیو پر گایا ہوا ان کا یہ گیت بہت مشہور ہوا۔ ’’وے میں چوری چوری تیرے نال لا لئیاں اکھاں وے‘‘ ریشماں نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ تنویر نقوی کا یہ گیت ’’وے ساڈے آسے پاسے پیندیاں پیار پھہاراں‘‘ کو وزیر افضل نے کمپوز کیا۔
ریشماں کا اصل نام پٹھانی بیگم ہے۔ لوگوں نے اسے ’’ریشماں‘‘ بنا دیا۔ ریشماں نے زیادہ تر راجستھانی اور پنجابی گیت گائے۔ بابا بلھے شاہ کی کافی یاد کرنے میں اسے پانچ دن لگ گئے۔ کراچی سے ایک اردو گیت گانے کی فرمائش ہوئی۔ ریشماں نے انکار کر دیا۔ اصرار پر اسے یہ گیت گانا پڑا۔ بول تھے۔ ’’اکثر شب تنہائی میں‘‘ اس گیت میں ایک لفظ ’’شگفتہ‘‘ تھا جس کی ادائی میں اسے مشکل پیش آئی۔ اس نے ’’شگفتہ‘‘ کے معنی دریافت کیے۔ اسے بتایا گیا ’’کھلا ہوا پھول‘‘ ریشماں نے کہا ’’فیر شگفتہ دی تھاں ’’پھول‘‘ ہی لکھ لوو‘‘۔ ریشماں نے بتایا کہ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میں ہر وقت اداس رہتا ہوں۔ میں نے اسے اللہ سے لو لگانے کو کہا۔ اس کے بعد یہ گیت گایا:۔؎
ہائے او ربا نہیوں لگ دا دل میرا
سجناں باجھ ہویا ہنیرا
ریشماں کی شادی 14 برس کی عمر میں ماموں زاد خان محمد کے ساتھ ہو گئی۔ ریشماں جس علاقے کی رہنے والی تھی، وہاںلڑکی کی شادی عام طور پر 14 سال کی عمر میں کر دی جاتی تھی۔ ریشماں بیرون ممالک راجستھانی لباس پہن کر جاتی تھی۔ ترکی اور نیروبی میں وہاں کی زبانوں میں گانے گائے۔ سب سے زبادہ اس نے پنجابی زبان میں گایا۔ اس کے علاوہ اردو، پشتو اور سندھی میں بھی کئی گیت گائے۔ ریشماں نے اپنے گھر میں تندور لگایا ہوا تھا۔ وہ کھانا خود پکاتی اور اپنے گھر لگے تندور میں پکائی روٹیاں کھاتی۔ ریشماں نے بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ ریشماں، فقیروں، صوفیوں اور درویشوں کی درگاہوں میں اکثر حاضری دیتی۔ وہ شاہ لطیفؒ کی درگاہ پر پیدل گئی تھی۔ سرکار بری امامؒ کی درگاہ پر وہ دیگ پکوا کر تقسیم کرتی رہی۔ ریشماں، شہباز قلندر کے مزار پر ہر سال جایا کرتی اور وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی۔ریشماں نے بھارت میں ملنے والی پذیرائی کا سہرا دلیپ کمار کے سر بتاتے ہوئے کہا کہ میں پہلی بار جب ممبئی گئی تو جس تیسرے درجے کے ہوٹل میں قیام پذیر تھی، دلیپ کمار مجھے ملنے آئے تو حیران ہو گئے۔ مجھے فوری طور پر اپنے خرچہ پر ایک اعلیٰ ہوٹل میں ٹھہرایا اور اپنی رہائش گاہ پر میرا پروگرام رکھا جس کی کمپیئرنگ انہوں نے خود کی۔
ریشماں کا کہنا تھا کہ 1964ء میں جب میں سڑکوں پرگاتی تھی۔ میری آواز سن کر مجھے ایک کوٹھی میں بلایا گیا۔ دیکھا تو وہ ہمارے فلمی ہیرو اعجاز درانی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی کوٹھی تھی۔ اعجاز درانی نے میری آواز کی بہت تعریف کی اور ملکہ ترنم نے میری آواز کی خاص کشش کا ذکر کیا۔