روزنامہ نوائے وقت میں 7 اور 8 نومبر کو دو اقساط پر مبنی محمد اسلم خان کا "زرداری کا گھیرائو اور خون ناحق کا سراغ" کے زیر عنوان مضمون شائع ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ میری نظر میں یہ مضمون باعث حیرت نہیں تھا، نہ ہی مجھے یہ کوئی خوش فہمی ہے کہ میری تحریر کے بعد صدر آصف علی زرداری کیخلاف نفرت آمیز رویوں میں کوئی کمی آئیگی۔ جماعت اسلامی کے ایک امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے ایک مؤقر اخبار کے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ جنرل ضیاء کی موت کے بعد ہر طرف آہ وبکا تھی۔ جلدی کرو آئی جے آئی میں شامل ہو جائو کیونکہ جنرل ضیاء غروب ہورہا ہے اور بینظیر بھٹو طلوع ہو رہی ہیں۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ مرحوم جنرل حمید گل کا اعتراف تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنائی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی کی تشکیل اور قومی خزانہ سے کروڑوں روپے چوری کرکے محترمہ بینظیر بھٹو کے مخالفین میں تقسیم کرنے کی حقیقت اب راز نہیں رہی۔ اب دنیا ترقی کر چکی ہے۔ ہر پڑھے لکھے شخص اور خاص طور پر نوجوان کے ہاتھ میں موبائل فون کی صورت میں چلتی پھرتی تاریخ ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں فاضل کالم نگارکا زوربیان کس طرح حقائق مسخ کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو بھٹو سے محبت کرنیوالی لازوال محبت اور بھٹو سے نفرت کرنیوالوں کی غضبناک نفرت ورثے میں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف زرداری گزشتہ تیس سال سے تعصب پر مبنی کردار کشی کی مہم کا سامنا کر رہے ہیں۔ تعصب کی انتہا ہے کہ موصوف مدعی اور منصف بن کر صدر آصف علی زرداری کے خلاف فتویٰ سنا رہے ہیں۔ رہی بات ایان علی کی تو وہ مرضی کی مالک ہیں جسے چاہیں وکیل کریں۔ سردار لطیف کھوسہ بھی وکیل ہیں۔ انکی روزی روٹی کا ذریعہ وکالت ہے۔ اگر انہوں نے ایان علی کی وکالت کی تو اس سے آصف علی زرداری کا کیا تعلق؟ ایک زمانہ مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ مشرف حکومت کے وکیل بھی رہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی کئی ایسے لوگوں کی وکالت کی جو پیپلزپارٹی کے مخالف تھے۔ ایسے میں سردار لطیف کھوسہ کی وکالت کے حوالے سے دور کی کوڑیاں لانا دراصل اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی کے مترادف ہے۔ صدر آصف علی زرداری پر کراچی کے سی آئی اے سینٹر میں جان لیوا تشدد کے بنیادی کردار رانا مقبول تھے، زندہ ہیں، ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب سینیٹر ہیں۔ کیا آصف علی زرداری نے ان سے کوئی انتقام لیا؟ بیوروکریٹ سمیع خلجی کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ صدر آصف زرداری کی حکومت کے دوران آرام سے ملازمت کرتے رہے۔ کیا صدر آصف علی زرداری نے انہیں رتی برابر بھی کوئی تکلیف دی؟ لاہور کے قلعہ گجر سنگھ میں آصف علی زرداری کیخلاف منشیات کے جھوٹا مقدمہ کرنیوالے پولیس آفیسر کو کوئی تکلیف ہوئی؟سینئر صحافی کالم نویس اور اینکر نصرت جاوید نے اپنے ٹاک شو میں کہا کہ حکمرانوں پر تنقید کرو تو جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور نوکریوں سے نکلوا دیتے ہیں۔انہوں نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آئیں مل کر آصف علی زرداری پر تنقید کرتے ہیں، انہیں خوب لتاڑتے ہیں۔ وہ نہ تو کوئی شکوہ کریں گے اور نہ ہی نوکری سے نکلوائیں گے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ کوئی بھی شخص صدر آصف علی زرداری پر تنقید نہ کرے۔ یہ بھی نہیں کہتا کہ صدر آصف علی زرداری پر تنقید جمہوریت دشمنی ہے۔ مگر نظریاتی اختلاف اور سیاسی تعصب کی بنیاد پر الزام تراشی کیلئے کچھ تو اخلاقی اقدار ہوتی ہیں۔ فاضل کالم نگار کو یہ حق ہے کہ سیاسی بنیاد پر صدر آصف علی زرداری میں خامیاں تلاش کریں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے افغان جہاد کے دوران سویت یونین کو توڑا جبکہ صدر آصف علی زرداری نے روس کے ساتھ ایک بارپھر پاکستان اعتماد کے تعلقات بحال کئے۔اگر سندھ میں منظرعام پر آنے والے جعلی اکائونٹس آصف علی زرداری سے منسوب کئے جائیںتو پھر کے پی اور پنجاب کے شہروں سے ملنے والے اکائونٹس کس کے ہیں، جہانگیر ترین یا پرویز خٹک کے؟ فاضل کالم نویس اپنی غیرجانبداری کا کچھ تو بھرم رکھنے کی زحمت کرتے۔ یہ طے ہے کہ صحافت کے اصول ہوتے ہیں، اقدار ہوتی ہیں۔ قلم سے انصاف ہوتا مگر مارا ماری نہیں ہوتی۔جہا ں تک اومنی بنک سے ملنے والے اکائونٹس کی بات کا تعلق ہے تو اومنی بنک کا دفاع ان کے وکلاء ہی کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نام نہاد جعلی اکائونٹس صرف اومنی بنک سے ملے ہیں؟ یہ بات صیغہ راز ہے کہ فالودے والے کا اکائونٹ کس بنک کا، پنجاب اور کے پی کے بنکوں سے ظہور ہونے والے اکائونٹس کس بنک سے ملے ہیں۔ حال ہی میں نیب کے ایک آفیسر سے 33کروڑ روپے گئے۔ شکر ہے کہ وہ پنجاب میں پکڑے گئے۔ اگر سندھ میں پکڑے جاتے تو فاضل کالم نگار اس نیب آفیسر کو بھی آصف علی زرداری کا فرنٹ مین قرار دینے میں بھی تاخیر نہ کرتے۔جناب مجید نظامی کو‘ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ سکوں عطا فرمائے اپنی رحمت سے نوازے، صدر آصف علی زرداری سے کوئی لالچ نہیں تھا۔ انہیں ملک کی سیاسی تاریخ کا ادراک تھا۔ جناب مجید نظامی نے اپنے اصولوں کو مقدم رکھتے ہوئے بلا کسی خوف اور انجام کے آصف علی زرداری کو مردحُر کے خطاب سے نوازا تھا۔ اگر انہیں آصف علی زرداری کے کردار پر رتی برابر بھی شک ہوتا تو وہ ہرگز ہرگز جناب آصف علی زرداری کو مرد حُر کا خطاب نہ دیتے۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے کبھی بھی جہاد کی آڑ میں فساد پھیلانے والوں کی حمایت نہیں کی۔ جی ہاں آصف علی زردرای نے وطن عزیز میں بارود کی آگ بھڑکانے والوں کو وطن دشمن ٹھہرایا۔جی ہاں صدر آصف علی زرداری نے سوات سے قومی پرچم اتارنے والوں کو اپنا نہیں مانا انہیں مار مار کر سوات سے بھگایا اور وہاں وطن کا پرچم سربلند کیا۔جی ہاں آصف علی زرداری نے ایڈ نہیں ٹریڈ کا فلسفہ دے کر قوم کو عزت و وقار کے راستے پر گامزن کیا۔جی ہاں آصف علی زرداری نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین کو اصل صورت میں بحال کیا۔جی ہاں آصف علی زرداری نے صوبوں کو بااختیار بنایا۔جی ہاں آصف علی زرداری سے وطن پرستی کا جرم ہوا۔ حقائق کسی کی چھرا ماری سے تبدیل نہیں ہوتے صاحب۔میرا صرف سوال یہ ہے کہ آپ کی دشمنی کس سے ہے۔ آصف علی زرداری سے یا پاکستان سے؟