اس میں دو رائے نہیں عمران خان کے سعودی عرب اور چین کے طوفانی دوروں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ، مگر ان دوروں میں انہوں نے ملک کی معاشی بدحالی کی وجہ کرپشن بتائی۔ وزیر اطلاعات اور وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی زبردست کوششوں کے باوجود پاکستان کے عوام کو کہیں سے بھی کوئی دولت واپس آتی نظر نہیں آرہی۔کہا گیا تھا کہ ملک و قوم کی لوٹی دولت واپس لائی جائے گی۔ وہ دولت تو واپس نہیں آئی بلکہ اس دولت کو واپس لانے کے لئے قائم کمیٹیوں اور مقرر افراد کی تنخواہوں اور اخراجات پر اس غریب ملک کا مزید اربوں ڈالر خرچ ہو چکا ہے۔ قانونی ادارے بھی لگتا ہے کسی کو نہیں چھوڑیں گے مگر عدالتوں میں جن لوگوں کو ’’جھاڑ‘‘ سننا پڑتی ہے وہ تو معمولی کارندے اور نوکر شاہی کے لوگ ہیں جبکہ بڑی مچھلیاں تو ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں احتسابی اداروں کے لئے نہایت حقارت سے کہتی ہیں کہ ’’نیب کی ہمت ہے جو مجھ پر ہاتھ ڈالے‘‘ یا حالیہ بے نامی یا قلفی، فالودے، سبزی والوں کے بنک اکائونٹ میں جن اربوں روپیوں کے ہونے کے انکشافات ہو رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کا سرا کسی بڑی شخصیت تک بھی جاتا ہے مگر اس کا مسئلہ بھی موصوف نے نہایت بہادری سے حل کر دیا ہے کہ اگر میرا پیسہ ہے، تو مجھے پکڑ لیں۔ حکومت بال بھی بیکا نہیں کر پا رہی، حکومت یا قانونی ادارے تو انکا بھی کچھ نہ کر پا رہے جنہوں نے شاہراہوں پر بیٹھ کر ملک کی اعلیٰ ترین شخصیات کے فوری قتل کے فتوے جاری کئے۔ عوام کی کم علمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آسیہ بی بی کے مسئلہ پر کروڑوں روپے کی کاریں بسیں اور املاک کو نیست و نابود کر دیا اور وزارت داخلہ نے انہیں کلین چٹ دے دی، اگر ایک منٹ کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ جنہوںنے توڑ پھوڑ کی وہ حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں کے لوگ تھے جیسا کہ وزارت داخلہ کہتی ہے تو پھر جنہوں نے بغاوت اور قتل کے فتوے جاری کئے وہ کون تھے؟ اس پر زبانیں کیوں ساکت ہیں؟ وزیراعظم کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ اگر حالیہ دھرنا ختم نہ کیا جاتا تو حکومت ختم ہو جاتی! یہ بات اپنی جگہ درست کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے حزب اختلاف سے ملاقاتیں کر کے صورتِ حال کو معمول پر لانے کی زبردست کوشش کی۔ اگر اس طرح کے دھرنوں سے حکومتیں گرنے لگیں تو پھر ملک چل چکے۔ ملک کی تاریخ کے بڑے اور مثالی دھرنے تحریک انصاف نے 2014ء میں خود دئیے۔ تب حکومت پریشان ضرور ہوئی مگر ختم نہیں ہوئی۔ حکومت قائم رہنے کا خوامخواہ کا کریڈٹ پی پی پی کے اعتزاز حسین لیتے ہیں کہ ان کی حمایت کی وجہ سے نواز حکومت نہیں گئی۔ دل کو بہلانے کیلئے ان کا یہ خیال اچھا ہے مگر اس وقت حکومت کی برطرفی کا طے نہیں ہوا تھا۔ وزیراعظم کا ملک کو مدینہ کی ریاست بنانے کا خیال بہت خوب ہے، مگر انہوں نے محاذ بہت کھول لئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے حالیہ اختلاف کی وجہ میں بنیادی کردار نوکر شاہی کا ہے۔ سپیکر اور وزیراعلیٰ کے علاوہ بھی کئی اندرونی اختلافات ہیں، گروہ بندی ہے جو نظر رکھنے والوں کو نظر بھی آتی ہے اس سے قبل کہ یہ سانجھے ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹے وزیراعظم اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنے گھر پر سنجیدگی سے نظر ڈالیں کیونکہ ان کے اپنے نظریاتی ساتھیوں کی تعداد کم ہے جبکہ جس سابقہ کرپشن کا ذکر کرتے ہیں اُن میں ملوث بہت سے لوگ تحریک انصاف کا حصہ ہیں جو electables کہلاتے ہیں اور ہرسابقہ حکومت کا حصہ کبھی نہ کبھی رہے ہیں جنہیں کرپٹ حکومتوں کا خطاب خود وزیراعظم عمران خان نے دیا ہے۔ وزیراعظم کے لئے ابھی کچھ شعبے ایسے ہیں جن پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم سمندر پار پاکستانیوں کو نہایت احترام سے دیکھتے ہیں اور ان کی ملک کے لئے کی جانے والی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، لہٰذا اب وہ سمندر پار پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے خصوصی وزارت بنائیں۔ اگر سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل ہو گئے ، تووہ ملک کی پہلے سے زیادہ خدمت کر سکیں گے۔ ان کے لئے موجودہ پیکج کا بھی جلد از جلد اعلان کیا جائے۔