میں ہرگز یہ دعویٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ٹی وی صحافت Ratingsکی محتاج ہونے کی بناءپر لوگوں کوحقائق بتانے میں ناکام رہتی ہے۔ اصل قصہ یوں ہے کہ ٹی وی سکرینوں کو مواد مہیا کرنے والے رپورٹر اپنے تئیں یہ طے کرلیتے ہیں کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جو کسی زمانے میں ہمارے فلم سازوں نے اختیار کیا اور بالآخر اس انڈسٹری کا بیڑا غرق ہوگیا۔ وگرنہ مجھے اپنے بچپن کا وہ زمانہ بھی یاد ہے جب خواجہ خورشید انور صاحب کی بنائی فلم ”کوئل“ کی گولڈن جوبلی کا جشن منایا گیا تھا۔
آج سے تقریباََ پانچ برس قبل میں نے اس فلم کو یوٹیوب کی مدد سے ایک بار نہیں کم از کم تین بار دیکھا۔ حیران ہوگیا۔ یاد رہے کہ 1965کی جنگ سے قبل بھارت میں تیار ہوئی فلمیں بھی لاہور کے سینماﺅں میں نمائش کے لئے میسر ہوا کرتی تھیں۔ تازہ بنی فلموں کے مقابلے میں نسبتاََ Slow Paceمیں بنائی ”کوئل“ نے گولڈن جوبلی کی ۔ غالباََ یہی کامیابی اس زمانے میں ہمارے ہاں بنی دیگر کئی اور فلموں کو بھی میسر ہوئی ہوگی۔
ہمارے فلم سازوں نے مگر حب الوطنی کے بہانے ”جال“ نام کی ایک تحریک چلائی۔ ہمارے لاہور کے ایک مشہور فلم ساز جن کا نام شاید عطاءاللہ تھا اس تحریک کے نمایاں افراد میں شامل تھے۔ ان کے بزرگوں نے لاہور سے ایک روزنامہ بھی نکالا تھا جو کافی مقبول رہا تھا۔
مرحوم کی میرے ایک تایا کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلفی والی دوستی تھی۔ وہ ان سے ملنے ہمارے تایا کی بیٹھک میں آتے تو تھوڑی دیر بعد میں شرم کے مارے وہاں سے کھسک جاتا تھا۔ کیونکہ ان دونوں کے مابین ہوئی گفتگو”صرف بالغان کے لئے “والے مراحل کی جانب بڑھ رہی ہوتی تھی۔
میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافی بننے کی لگن میں مبتلا ہوگیا تو ایک دن میکلوڈروڈ کی مشہور زمانہ لکشمی بلڈنگ میں قائم شباب کیرانوی کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوگئی۔ ان دنوں شباب صاحب کی بنائی ایک فلم کھڑکی توڑرش لے رہی تھی۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ کابل کے ایک سینما میں اس نے بھارت کی بنی ایک فلم دیکھی ہے اور شباب صاحب کی بنائی فلم اس کا فریم ٹو فریم یعنی ہوبہو چربہ تھی۔ منہ اٹھائے لہذا میں شباب صاحب کے دفتر چلا گیا۔ خواہش تھی کہ اپنے دوست کی بتائی بات کا ”صحافیانہ سوالوں“ سے تذکرہ کروں۔
میری بدقسمتی کہ عطاءاللہ صاحب جو یہ کالم لکھتے ہوئے یاد آگیا اپنے نام کے ساتھ ہاشمی بھی لکھا کرتے تھے وہاں موجود تھے۔ احتراماََ انہیں لوگ شاہ جی کہہ کر مخاطب ہوتے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے اونچی آواز میں استفسار کیا کہ ”فلماں وچ کم منگن آیاں؟“۔ ان کی دانست میں گویا میرے شباب صاحب کے دفتر میں آنے کا مقصد ان کی بنائی کسی فلم میں کام کرنے کا ”چانس“ ڈھونڈنا تھا۔
میں اپنے ذہن میں آئے سوالات کو ”صحافیانہ“ انداز میں اٹھانے کے بجائے ”ہاشمی چاچا“کو سمجھانے میں مصروف ہوگیا کہ فلموں میں قسمت آزمانے کے بجائے میں نے صحافی بننے کا مصمم ارادہ باندھ رکھا ہے۔”کوئی ڈھنگ دا کم سوچ“ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر مجھے دس روپے دئیے اور جلدی گھر لوٹ جانے کا حکم صادر کیا۔ میری Investigation Reportingکا ”بندوبست“ ہوگیا۔
شباب کیرانوی مرحوم کے دفتر میں ہوا یہ واقعہ مجھے پیر کی سہ پہر سینٹ کے پریس لاﺅنج میں بیٹھے ہوئے یاد آیا۔ ہم صحافیوں کی سہولت کے لئے اس لاﺅنج میں کئی ٹی وی سکرینیں بھی دیواروںپر نصب ہیں۔ ان کی بدولت ہم سینٹ یا قومی اسمبلی میں جاری معاملات سے آگاہ رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک دو سکرینوں کے ذریعے چند چینلوں کی براہِ راست نشریات بھی دیکھ سکتے ہیں تاکہ پارلیمان سے باہرہوئے معاملات کے بارے میں باخبر رہیں۔
میں جب گیلری سے اُٹھ کر لاﺅنج میں آیاتو مسلم لیگ نون کے سینیٹر مشاہد اللہ خان صاحب مائیک سنبھال چکے تھے۔ وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب ان کی طنز بھری تقاریر کا مستقل موضوع رہاکرتے ہیں۔ پیر کے دن بھی مشاہد اللہ اپنے ”محبوب“ پر کاٹ دار فقروں کے تیر برساتے رہے۔ ان فقروں میں سے اکثر کو سینٹ کے چیئرمین نے ”غیر پارلیمانی“ ٹھہراتے ہوئے ریکارڈ سے Expunge کر دیا۔ جو ٹی وی نیٹ ورک ہمیں اس وقت لاﺅنج میں میسر تھا دریں اثناءسینٹ کے اجلاس پر Cutکرچکا تھا۔ وہاں ہوئی تقریر براہِ راست نشر ہورہی تھی۔ مشاہد اللہ صاحب کے فقرے ٹِکروں کی بھرمار کی صورت نمایاں کئے حروف میں Scrollبھی ہوتے رہے۔ لاﺅنج میں موجود اکثر رپورٹروں نے بھی اس تقریر کو بلند آواز قہقہوں سے Enjoyکیا۔ ان کے محاورے والے ”پیسے پورے ہوگئے“۔مزا آگیا۔
مشاہد اللہ صاحب کے بعد پیپلز پارٹی کے جواں سال رکن مصطفےٰ نواز کھوکھر کی باری آئی تو گویا ”چراغوں میں روشنی نہ رہی“۔خالصتاََ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں اصرار کرتا ہوں کہ مصطفےٰ نواز کھوکھر کی جانب سے ہوئی تقریر حیران کن حد تک جارحانہ تھی۔ عادتاََ وہ ایک خاموش وحلیم الطبع شخص ہیں۔ پیر کے روز مگر وہ ایک بہت ہی ”حساس“ معاملے پر سوالات اٹھاتے ہوئے چرا غ پا دکھائی دئیے۔
میری منافقانہ احتیاط کو بھی ذرا ذہن میں لائیں۔میں نے کھل کر بات کرنے کے بجائے مصطفےٰ نواز کھوکھر کے اٹھائے سوالات کو ”حساس“ موضوع سے متعلق ٹھہراتے ہوئے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ اپنی منافقت کا احساس ہوا ہے تو یہ لکھنے کو بھی مجبور پاتا ہوں کہ موضوع ان کی تقریر کا سپریم کورٹ کا ایک ”حساس“ معاملہ کے بارے میں آئے حالیہ فیصلے پر تحفظ مذہب کے نام پر اُٹھی ایک تحریک کی جانب سے بھڑکایا ردعمل تھا۔
اس ردعمل پر فوکس کرتے ہوئے مصطفےٰ نواز کھوکھر نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 17کا حوالہ دیا۔ یہ آرٹیکل عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف بدگمانیاں پھیلانے والی کسی جماعت کو کالعدم ٹھہرانے کی راہ دکھاتا ہے۔ مصطفےٰ نواز کھوکھر کو پریشانی لاحق تھی کہ مذکورہ آرٹیکل کا اطلاق کیوں نہیں ہوا۔ یہ کہتے ہوئے مصطفےٰ نے اپنی تقریر ختم کردی کہ اگر اس آرٹیکل کا اطلاق ممکن نہیں تو ”ہم قانون سازوں“ کو باہم مل کر اسے آئین سے نکال دینا چاہیے۔
مصطفےٰ نواز کھوکھر کی تقریر پر Live Cutنہیںہوا۔ صحافت کے ہر اصول کے مطابق اگرچہ یہ تقریر Live Cutکی مستحق تھی۔ اس کے ذریعے اٹھائے سوالات شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک کرنٹ افیئرز کے نام پر چلائے Segmentsمیں بھی پرزوربحث کے مستحق تھے۔مجھے قوی یقین ہے کہ اگر Ratingsہی کو ہدف بنایا جائے تو یہ تقریر بے تحاشہ Eye Ballsکو Attractکرسکتی تھی۔
ہم صحافیوں کو مگر اپنی اوقات کا اندازہ ہوچکا ہے۔ ہم Ratingsکی ضروریات کے مطابق بھی اپنا دھندا چلانے کے قابل نہیں رہے۔ کونے میں دبک کر دہی کھاتے ہوئے اچھے دنوں کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ انتظار کرتے ہوئے مگر بھول چکے ہیں کہ بے بس محسوس کرتے مفلوج ذہنوں کے لئے ”اچھے دن“ من و سلویٰ کی صورت نازل نہیں ہوا کرتے۔
٭٭٭٭٭
سینٹ میں مشاہد اللہ اورمصطفی نواز کھوکھر کی ”جارحیت“
Nov 14, 2018