بنی گالہ: چارجز نہ دینے والوں کی تعمیرات گرا دیں‘ چیف جسٹس: نیب سب کو پکڑے یا چھوڑے‘ جسٹس عظمت

Nov 14, 2018

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو جنرل سروے آف پاکستان کو دس دنوں میں23لاکھ ادا کرنے کا حکم دے دیا ہے، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سی ڈی اے کے پاس نا تو اہلیت ہے نہ ہی صلاحیت اور نا ہی منصوبہ بندی جبکہ نیا پاکستان بن رہا ہے۔ ممکن ہے زیر زمین ٹرین ہی چلانی پڑے۔ جو ریگولرائزیشن کے چارجز نہیں دیتے انکی تعمیرات گرادیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بنی گالہ بوٹینکل گارڈن کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کہہ چکے ہیں جن 65لوگوں نے درخواستیں دیں ان کی تعمیرات ریگولر کریں اور منصوبہ بنا کر دیں۔ باقی ریگولرائزیشن کیسے ہونی ہے منصوبہ بنا کر دیں تاکہ ہم مقدمہ نمٹا دیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زون 4کے بہت سے علاقوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ علاقے میں سڑک اور سیوریج سسٹم کے لیے زمین حاصل کرنا ہو گی تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے تمام اقدامات کرنے کیلے بھاری فنڈز درکار ہوں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بنی گالہ میں تعمیرات ہوئیں، بنی گالا کے زون 3 اور 4 میں غیر ریگولر تعمیرات ہو چکی ہیں، سی ڈی اے اب تعمیرات کو ریگولر اور علاقہ کو ماڈرن شکل دینا چاہتا ہے، سی ڈی اے کو علاقے کو ماڈرن شکل دینے کیلئے زمین خریدنی پڑے گی۔ سی ڈی اے تعمیرات ریگولر کرے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے کن زونز پر ریگولیشن کا اطلاق کرے گا۔ چیف جسٹس بولے سی ڈی اے نے زون 3اور زون 4 کا ترقیاتی منصوبہ نہیں بنایا اور ساتھ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریگولرائزیشن کے چارجز نہیں دیتے تو تعمیرات گرا دیں۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ لوگوں نے تعمیرات کی ریگولرائزیشن کیلئے درخواستیں دے دی ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ تعمیرات پر ریگولرائزیشن کی پنیلٹی دینا پڑے گی یہ نہیں ہو گاکہ تعمیرات ریگولر ہو لیکن جرمانہ نہ دینا پڑے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بوٹینکل گارڈن کے اطراف میں 70فیصد دیواریں بن چکی ہیں اور غیر قانونی قابضین کو گارڈن سے نکالا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگوں کو ریگولرائزیشن کی فیس پر اعتراض ہے۔ اگر سی ڈی اے بنی گالا میں نیا شہر آباد کرنا چاہتا ہے تو سی ڈی اے زمین خریدے اور لوگوں کو معاوضہ دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے کی آج کل موجیں لگی ہیں تعمیرات گرائی جا رہی ہیں سی ڈی اے پیسہ بنائے جا رہا ہے۔ وکیل نے کہا کہ سی ڈی اے کو عدالت کی طاقت ملی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے اس وقت طاقت کے نشے کے خمار میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت نے زمین کے تبادلے کے چارجز 5فیصد سے اڑھائی فیصد کر دیے۔ سی ڈی اے تبادلے کے چارجز اڑھائی فیصد کر دے سارے علاقے کا فائدہ ہو جائے گا۔ اور مزید تعمیرات سی ڈی اے کے قواعد کی منظوری سے ہوں گے اور تعمیرات میں ماحولیاتی ادارہ کا کردار اپنی جگہ موجود رہے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سروے جنرل پاکستان منافع بخش ادارہ نہیں ہے اور سروے کے چونتیس لاکھ روپے بہت زیادہ ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے نے 23لاکھ روپے سروے کی مد میں منظور کر لیے ہیں، عدالت نے سی ڈی کو 23لاکھ روپے دس روز میں سروے جنرل پاکستان کو ادا کرنے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی کورنگ نالہ سروے کی رقم، معاوضے کے لیے سروے جنرل پاکستان سے فی کلو میٹر کے چارجز بھی طلب کر لیے، سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کورنگ نالہ سروے کے اخراجات تمام متعلقہ ادارے ایک ماہ میں ادا کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زون ون کی تعمیرات ریگولر نہیں ہو سکتی ہے جس پر وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ زون ون میں غریب لوگوں کی تعمیرات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے دیکھ لے کیا زون ون میں تعمیرات ریگولر ہو سکتی ہیں وکیل نے کہا کہ اس عدالت سے غریب کو ہمیشہ ریلیف ملا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہاں جی ’’لٹ پئی اے لٹ کے لے جا‘‘ اور کہا کہ بلائیں چیئرمین سی ڈی اے کدھر ہیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے کہ چیئرمین سی ڈی اے شاید نکل گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین سی ڈی اے کس کے ساتھ نکل گئے ہیں۔؟ چیف جسٹس کے استفسار پر عدالت میں قہقہ لگا اور پھرکیس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر درختوں کی کٹائی کیس میں جنرل سروے آف پاکستان کی رپورٹ پر محکمہ جنگلات اور دیگر فریقین سے جواب طلب کر کے سماعت 17نومبر تک ملتوی کر دی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کیسز پہ نوٹس لیا وہ ادھورے چھوڑ کر نہیں جائیں گے کیسز نمٹا کر فیصلہ کر کے ہی جائوں گا، چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مارگلہ ہلز درختوں کی کٹائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے بوتل بند پانی کمپنیوں پر زیر زمین پانی استعمال کرنے پر ایک روپیہ فی لٹر چارج لگا دیا ہے،عدالت نے عدالتی کمشن کو تمام بڑی منرل واٹر کمپنیوں کی انسپیکشن کا حکم دے دیا ہے، چیف جسٹس نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پانی کی قیمت کے نوٹیفیکشن طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیے کہ قوم کو پیاسا مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا آج پانی کا مسئلہ حل نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریںگی، چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منرل واٹر کمپنیوں کے زیر زمین پانی کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی مشروب ساز کمپنی کے نمائندے باتوں سے لگتا ہے آپ کو 1 روپیہ فی لٹر دینے نہیں لینے کی ضرورت ہے، عدالت کے کہنے پر ہی 25پیسے ادا ہو رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا قوم کا پانی مفت استعمال کرنے دوں، جس کمپنی کو ریٹ منظور نہیں وہ کام بند کر دے، آپ قوم کی فکر چھوڑ دیں، قوم ابلا ہوا پانی پی لے گی، کسی کے کاروبار بند ہونے کا مسئلہ نہیں، اللہ سب کا رازق ہے۔ کسی کی کمپنی کے منافع کے لیے پوری قوم کو آگے نہیں لگا سکتا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ نجی کمپنی کے پانی کی رپورٹ ہم نے دیکھی ہے، بوتل کے پانی میں منرل پورے نہیں ہوتے، یہ پانی پینے کا کوئی فائدہ نہیں، بوتل والا پانی پینا چھوڑ چکا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 55روپے لیٹر بوتل پر ایک روپیہ دینا کیا مسئلہ ہے، پانی کی قیمت سے جمع ہونے والا پیسہ بھی پانی پر ہی خرچ ہوگا، ڈیڑھ لیٹر کی بوتل پرکتنا کماتے ہیں، جس پر نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ ڈیڑھ لٹر بوتل پر کوئی منافع نہیں۔ کمپنی نے گزشتہ سال 500ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، 1روپیہ فی لیٹر قیمت ہونے سے 2ارب روپے ادا کرنا ہوں گے، چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ کیا فیکٹری مالکان پاگل ہیں جو بغیر منافع کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں پانی چوری کر رہی ہیں، فیکٹری مالکان صرف اپنے منافع کا سوچ رہی ہیں آپ کو چاہیے تھا کہ آج تک استعمال کیے گیے پانی کی رقم ڈیم فنڈ میں دیتے، کمپنیوں نے مفت میں اربوں روپے کما لیے، اربوں روپے کا پانی نکال کر فروخت کیا گیا، کمپنیاں کچھ نہ کچھ تو ادا کریں، کیا کمپنی کا حق ہے کہ زیر زمین پانی مفت استعمال کرے، قوم کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا۔عدالتی معاون سائنسدان ڈاکٹر احسن صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ انسان پانی کی ایک بوند بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ دریائے سندھ کا پانی فلٹر کے بعد منرل واٹر سے زیادہ اچھا ہے، دریائے سندھ کے پانی سے بیکٹیریا ختم کر دیا جائے تو یہ بوتلوں سے ہزار گنا بہتر پانی ہے، اس کے علاوہ اگر شہری 10 لیٹر پانی میں سوڈیئم ہائپو کلورائیڈ کے چار قطرے ملا دیں تو یہ بوتلوں کے پانی سے بہتر ہوجائے گا۔ عدالتی معاون ظفر اقبال کلانوری ایڈووکیٹ نے تجویز دی کہ جب سے کمپنیاں زمین سے پانی نکال رہی ہیں تب سے ٹیکس وصول کیا جائے اور پانی کی بوتل کے بجائے زمین سے نکالے جانے والے فی لیٹر پانی پر ٹیکس عائد کیا جائے، ایک نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ کل کو آکسیجن کے استعمال کی بات بھی کی جائے گی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آکسیجن کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے ہمیشہ بہتری چاہی ہے، کبھی تخریبی ذہن کے ساتھ نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران کمپنیوں کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے میری ریٹائرمنٹ کے بعد آپ مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیں گے لیکن وکلا فیس لیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ موکل کو درست بات بتائیں۔ عدالت نے زیر زمین پانی استعمال کرنے پر ایک روپیہ چارج فی لٹر لگا دیا تاہم مشروبات (کولڈ ڈرنکس) پر ایک روپیہ چارج کے اطلاق کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ سندھ حکومت نے ایک روپیہ فی لٹر قیمت بیورج کمپنیوں کیلئے بھی مقرر کی ہے عدالت نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے پانی کی قیمت کے نوٹیفکیشن طلب کر لیے ہیں کیس کی مزید سماعت سوموار کو لاہور رجسٹری میں ہوگی،عدالت نے عدالتی کمیشن کو تمام بڑی منرل واٹر کمپنیوں کی انسپکشن کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ملک کو پانی منیجمنٹ کی اشد ضرورت ہے،کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی،ملک میں پکے کھال اور نالے بنانے کی ضرورت ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں اربوں روپے کما رہی ہیں،تیس سال بعد ملک کی آبادی 45کروڑ ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی کے کنٹرول کے معاملے پر کانفرنس کروانے جا رہے ہیں علما کو کیسے آن بورڈ لینا ہے یہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ مزید برآںسپریم کورٹ نے وزیراعظم کو بالاکوٹ نیوسٹی میں ایک بھی گھر تیار نہ کرنیوالے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا حکم دیدیا، عدالت عظمیٰ نے سیشن جج مانسہرہ کی رپورٹ اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیراعظم کو بھجوا دی ۔منگل کو عدالت عظمیٰ میں زلزلہ فنڈ سے متعلق کیس چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بالاکوٹ میں طبی اور تعلیمی نظامت کا معقول بندوبست نہیں۔ آج بھی لوگ ٹین کی چھتوں تلے قابل رحم حالت میں گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کاغان میں آج بھی بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایرا سے استفسار کیا کہ کیا آپ آرمی سے ریٹائرڈ ہیں اور مراعات کی مد میں آپ کو کیا مل رہا ہے۔ ڈی جی ایرا نے عدالت کو بتایا کہ وہ حاضر سروس بریگیڈئر ہیں اور ایرا میں ملنے والی اضافی ذمہ داریوں کے عوض انہیں 60 ہزار روپے ماہانہ آرمی کی تنخواہ کے علاوہ ملتے ہیں۔ انتظامی اخراجات کے حوالے سے کمشن کی رپورٹ موجود ہے جس میں ایرا کی کارکردگی کی تعریف کی گئی ہے۔ چیف جسٹس برہم ہوئے تو بولے کہ’’ آپ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بنیں’’ آپ کھادا آپے پیتا آپے واہ واہ کیتی جا‘‘ کے مصداق اپنی تعریفیں نہ کریں،ایسا نہ کریں کہ آپ کو واپس بھیج دیں جا کر آرمی میں ملک و ملت کیلئے کام کریں۔ کیس کی مزید سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کی نااہلی کے معاملے پر (آج) سماعت کرے گا۔ علاوہ ازیںجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ نیب نے کس کو پکڑنا ہے اور کس کو چھوڑنا یہ فیصلہ آخر کرتا کون ہے نیب مقدمات میں دونوں آنکھیں کیوں نہیں کھولتا جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیب کی کارکردگی پہ سوال اٹھا دیئے سپریم کورٹ میں منگل کے روز بنک فراڈ کیس کے ملزمان کی ضمانتوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ لوگوں نے ٹرانزیکشن میں نیب نے صرف دو کو پکڑا ہے کس کو پکڑنا ہے اور کس کو چھوڑنا یہ فیصلہ آ خر کرتا کون ہے ؟ نیب مقدمات میں یا تو سب کو پکڑے یا سب کو چھوڑے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب مقدمات میں دونوں آنکھیں کیوں نہیں کھولتا۔ اسلام آباد کے ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات سے متعلق وزارت صحت سے جواب طلب کرلیا کیس کی سماعت پندرہ روز کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ دریں اثنا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاست کے تین ستون ٹکراتے ہیں توقوم کا نقصان ہوتا ہے ایک طوفان وہ تھا جب چند سیاسی طاقتوں نے اس ادارے کی بنیادوں کو ہلا دیا، آج عدلیہ عوام کا اعتماد حاصل کر چکی ہے سپریم کورٹ میں جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس اجمل میاں، جسٹس مختار احمد جونیجو اور جسٹس حامد علی مرزا کی یاد میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جج کے لیے بہادری کی کوئی چوائس نہیں ہوتی حلف اٹھاتے ہی اسے بہادر ہونا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے نظام پر لوگوں کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ عدلیہ کو قوم نے محفوظ کیا ہے۔

مزیدخبریں