کرتار پور کا قصیدہ اور سرینگر کا نوحہ

اس وقت ہماری حکومت کرتار پور راہداری کھولنے کی خوشی میں سکھ اور پاکستانی لبرل سے مبارکبادیں وصول کر رہی ہے۔ لکھنے والے حکومت کی شان میں اور وزیر اعظم کے لیے قصیدے ، سہرے اور نجانے کیا کیا لکھ رہے ہیں۔ خوشی اور سرشاری کے اس عالم میں وزیر اعظم اور حکومت کو بھلا دوسری طرف دیکھنے کی فرصت کہاں۔ جب ہر طرف سے دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہوں تو آس پاس برپا آہ و فغاں کی آوازیں کم ہی سنائی دیتی ہیں۔ کرتار پور راہداری ایک اچھا اقدام ہی سہی مگر کیا اس کے بدلے میں کسی حکومتی وزیر مشیر یا تھنک ٹینک کے افلاطونوں کے ذہن میں ایک معمولی سی بات بھی نہیں آئی کہ کرتارپور راہداری کے بدلے میں مشرقی پنجاب میں 70 برسوں سے ویران اجڑی ہوئی تمام مساجد و مزارات نہ سہی بڑی بڑی مساجد کو ہی واگزار کرانے کی شرط رکھی جاتی۔ ان مساجد اور مزارات میں گدھے، گھوڑے ، گائے ، بھینس حتیٰ کہ سور تک پالے جاتے ہیں جبکہ ان کی محرابوں اور پیشانیوں پر لکھا ہوا کلمہ ان کی پاکیزگی کی گواہی د یتا نظر آتا ہے۔ اس وقت سکھ پاکستان کی محبت میں مبتلا ہیں وہ یہ مطالبہ مان بھی لیتے اس طرح یہ خانہ خدا ناپاکوں کے وجود سے پاک ہو جاتے۔
بہرکیف لبرل حکمرانوں اور سوسائٹی کو اس سے کیا۔ الٹا ہمارے حکمران بھارت سے کہہ رہے ہیں کہ کشمیر سے کرفیو ختم کرو اور ہمیں شکریہ کا موقع دو۔ کیا کشمیر کی تحریک آزادی صرف کرفیو کے خاتمے کے لیے تھی۔ وزیر خارجہ بھول رہے ہیں کشمیری ایسے طویل کریک ڈائون اور کرفیو 1990ء سے 2019ء تک درجنوں مرتبہ بھگت چکے ہیں۔ یہ شہادتیں مالی قربانیاں ان کے لیے نئی نہیں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے حوالے سے زبردست تقریریں کر کے بے پناہ داد سمیٹ چکے مگر کیا مسئلہ کشمیر تقریروں سے حل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تقریروں سے یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ وہ ایک عالمی مقرر تھے۔ آج کل ایک زبردست لطیفہ چل رہا ہے۔ سنی دیول جو ہندی فلموں کے اداکار ہیں انہوں نے ایک فلم میں جو ڈائیلاگ کہے تھے کہ دودھ مانگو گے تو کھیر د یں گے کشمیر مانگو گے تو چیر دیں گے کے جواب میں ہمارے ہاں بھی دودھ مانگو گے تو کھیر دیں گے کشمیر مانگو گے تو تقریر دیں گے والا ٹرنٹ چل رہا ہے۔ یہی اداکار اسی فلم میں ایک پاکستانی کو دھمکی دیتا ہے کہ میں ایک دن تمہیں بغیر ویزہ کے پاکستان جا کر دکھائوں گا۔ اس کا کہا سچ ثابت ہو گیا ہے اور وہ بنا ویزے کے کرتار پور پاکستان آ کر راہداری کی تقریب میں شریک تھا۔ ان حالات میں کشمیر میں 100 سے زیادہ دن ہو گئے زندگی بند پڑی ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ دنیا بھر سے 90 لاکھ افراد کے رابطے کٹ چکے ہیں۔ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ کون جی رہا ہے کون مر رہا ہے کوئی نئی نہیں جانتا۔ عالمی برادری افسوس کا اظہار کر کے تعزیتی بیانات جاری کر کے اب خاموش ہے کہ دیکھتے ہیں پاکستان اور بھارت اس مسئلے پر کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے بزرگ رہنما جو مکمل طور پر کشمیر بنے گا پاکستان کے اس نظریہ کے علمبردار بھی ہیں۔ اس بزرگ رہنما نے حکومت پاکستان کے نام ایک خط تحریر کیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان تک اگر وہ خط نہیں پہنچا تو گزشتہ روز کا اخبارات میں اس خط کا مشن شائع ہو چکا ہے۔ یہ خط وزیر اعظم عمران خان کے نام ہے۔ سید علی گیلانی اس خط میں نہایت درد بھرے لہجہ میں ان سے کہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ دوستی بھرے تعلقات بڑھانے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کی حالت زار پر نظر رکھیں ۔ یہ راہداری یا تجارت کشمیریوں کے زخموں کا مداوا نہیں۔ دشمن سے پیار کیوں۔ بھارت عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا اب کھلم کھلا کشمیریوں کو ریاست سے بیدخلی کے پلان پر عمل کر رہا ہے۔ انہیں گھر چھوڑنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اہم فیصلے کرے۔ پاکستان تاشقند ، شملہ اور معاہدہ لاہور سے دستبرداری کا اعلان کرے۔ لائن آف کنٹرول کو دوبارہ جنگ بندی لائن کا درجہ دے کیونکہ اس وقت صورتحال 1848-1947ء والی حالت پر پہنچ چکی ہے۔ اس لیے پاکستان مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اٹھائے عالمی عدالت میں لے جائے۔ ایل او سی پر معاہدے کے تحت لگائی باڑ کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میری عمر اور صحت کا بھروسہ نہیں نجانے اب بھی پھر آپ سے مخاطب ہو سکوں گا یا نہیں۔ یہ میری آخری اپیل بھی ہو سکتی ہے۔ کیا حکومت پاکستان کے پاس ایک بزرگ کشمیری رہنما اس آخری اپیل پر غور کرنے کی فرصت ہو گی جو قصیدہ گوئی کے اس ماحول میں کشمیر کا پر درد مرثیہ اور نوحہ لکھ کر پاکستانی حکومت اور عوام کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ کرتارپور کی مبارک سلامت اب تمام …اب حکومت عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اٹھائے۔ سیز فائر لائن پر باڑ ختم کرائے۔ شملہ تاشقند اور معاہدہ لاہور سے دستبرداری کا اعلان کرے تاکہ عالمی برادری کے کان کھڑے ہوں اور صورتحال کی سنگینی کا احساس ہو۔ ورنہ ایک ہزار تک جنگ لڑنے کی تقریروں سے کشمیر حاصل نہیں ہو گا۔ ہاں البتہ کشمیری اور کشمیر دونوں ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
گیلانی صاحب کامشورہ بالکل صائب ہے اس کے ہر نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ حقیقت میں یہ کشمیریوں کے دل کی آواز ہے۔ اگر ان پر عمل نہ ہوا تو کشمیر بھارت کے لیے پہلے بھی ترنوالہ تھا اب سے نگلنا بھارت کے لیے مشکل نہ ہو گا۔ پاکستان کی ڈھلمل پالیسی سے البتہ کشمیریوں کی بربادی کے دن اور طویل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اب سخت اقدامات کرنے ہی پڑیں گے۔

ای پیپر دی نیشن