پاکستان انجینئرنگ کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں صدر ڈاکٹر عارف علوی بیورو کریسی کی سست روی سے خاصے دلبرداشتہ دکھائی دئیے۔ فرمایا کہ کام کو ٹالنا اور فیصلوں سے اجتناب افسر شاہی کا خاصا بنتا جا رہا ہے۔ اگلے روز ایوان صدر میں کوئی فائل آئی اور جناب صدر کو پُٹ آپ ہونے سے پہلے ہی غائب ہو گئی۔ اور چھ ماہ تک نہ جانے کہاں دبکی رہی۔ جب ذرا ڈپٹ ہوئی تو ناگہانی طور پر ایک روز منظر عام پر آ گئی۔ نوٹنگ کے لیے متعلقہ افسر کو بھجوائی گئی، تو مشورہ ملا کہ ازخود فیصلہ لینے کی بجائے فائل روٹیشن کے لیے ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھجوا دی جائے تاکہ سب وزارتوں کی رائے معلوم کی جا سکے۔ صدر مملکت نے آزردگی سے کہا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں فائلوں سے نمٹنے کا یہ انوکھا طریقہ رائج ہو چکا ہے کہ خود فیصلہ لینے کی بجائے اسے روٹیشن میں ڈال د و۔ مگر یہ ایکسرسائز بھی بیکار، کیونکہ بیوروکریسی کے سبھی کل پرزے سیانے ہو چکے ہیں۔ حکومتوں کے کام ایسے تو نہیں چلتے۔ مگر اپنے کولیگز کی نیب کے ہاتھوں گت بننے کے بعد کوئی بھی اہلکار کسی بھی فیصلہ کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ مسئلہ کا کوئی قابل عمل حل ہی اس جمود کو ختم کر سکتا ہے۔