کرتار پور میں نوجوت سدھو کی شعروشاعری

سدھو نے شعرانہ اور جذباتی انداز میں کہاکہ ایک ’’جپھّی‘‘ کرتارپور راہداری لاہنگا کھول دے تو دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں اور سوویں ’’جپھّی‘‘کیا رنگ لاسکتی ہے اور پھر اسی بات کو شعرمیں بیان کردیا کہ …؎
اِک جپھی جے لاہنگا کھولے تے دوجی جپھی پایئے
تیجی،چوتھی،پنجویں،چھیویں ،سویں جپھی پایئے
آئو جپھی جپھی کرکے یارو سب مسئلے سلجھایئے
ایویں کیوں پْت ماواں دے آپاں حداں دے مروایئے
یعنی محبت اور پیار سے معاملات حل کریں، سرحدوں پر ماوں کے بچے کیوں مروائیں۔
ایہہ کوئی لانگا نہیں اے الکھ جگاو
سچ دی راہ پاو
بابا دے پارس آں پارس
آکاش کی کو ئی سیما نہیں
پرتھوی کا کوئی تول نہیں
سادھوکی کوئی ذات نہیں
پارس اور بابا نانک کا کوئی تول نہیں
کوئی مول نہیں
سدھو کہتا ہے کہ زمین کی قیمیتں اور سیاحت کے پہلو سے بھی دیکھیں تو نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ جہاں بابانانک کانام آگیا وہاں ترقی آسمان کی طرف جائیگی اور برکت آئیگی۔
ایہہ گل صرف لانگے دی نہیں
ایہہ گل تے ہے اک پیغام دی
سرمد دا بھلاجومنگدا سی
ایہہ اواس نانک دے نام دی
جو سبق پڑھایا ایکے دا
ایہہ گل سی اْس مرشد دے نام دی
گل اْس مقدس راہ دی ہے
جو پاس توں پانی تک جاندا
نانک دی نگری تک جاندا
نانک دی پانی تک جاندا
تے گل صرف لانگے دی نہیں
ایہہ گل تے امن امان دی اے
فکراں وچ ڈبیاں ماواں دے
سینے وچ ٹھنڈ پان دی ایہہ
ایہہ گل انسانی دل دی ایہہ
ایہہ گل تے مستقبل دی اے
ایہہ گل انسانی دل دی ایہہ
اے کلے ہندوستان دی نہیں
اے کلے پاکستان دی نہیں
ایہہ گل تے کل جہان دی اے
اے گل تے تیاں پتراں نوں
مرشد دی راہ تے پان دی اے
سدھو کہتا ہے کہ دس ماہ میں آخرہوتا کیا ہے۔ 72 سال سکھوں کی قسمت پر تالے لگے رہے، لیکن کسی نے آواز نہ سنی لیکن یہاں عمران خان نے دس ماہ میں خواب کو حقیقت بنادیا۔ سیاستدانوں کے دل ’’چڑیا‘‘ کی طرح ہیں۔ عمران خان کا دل سمندر ہے۔ اب دل کھولیں، سرحد کھولیں کیونکہ عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جس نے نفع نقصان نہیں تولا۔ میرا خواب ہے کہ امرتسر سے ساگ مکئی کی روٹی کھاکر بریانی لاہور میں کھائے، تجارت کرکے واپس چلا جائے۔ سیاسی لڑائی اپنی جگہ لیکن منا بھائی ایم بی بی ایس والی ’’جپھی‘‘ بھجوارہا ہوں۔ آپ کا بھی شکریہ۔
دعاہے آپ کی ہستی کا
کچھ ایسا نظارہ ہوجائے
کشتی بھی اتارے موجوں پہ
طوفاں ہی کنارہ ہوجائے
سرحد پار دوسری طرف ڈیرہ بابا نانک میں مودی موذی نے بھی خطاب کرکے ’’کھسیانی بجلی کھمبا نوچے‘‘ کو نئے معنی دئیے۔ وہ جو کہہ رہا تھا اور جو وہ کرچکا ہے اور کررہا ہے، وہ سراسر نفی تھی۔ موذی نے کمال مکاری وہوشیاری سے کرتارپورراہداری کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ کہا مجھے کرتارپورراہداری آپکو تحفے میں دیتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ کہتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے بھارتیوں کی خواہشات کو سمجھا اور ان کا احترام کیا۔ باباگرونانک کے فلسفے کا ذکر کرنے سے پہلے موذی کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے تھا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانیت کا خون بہانے کا ظلم اسے یاد نہ رہا، نہ ہی گجرات میں جس طرح بے بس مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا، وہ ظلم ہی اس کی نظر اور آواز نیچی کرسکا۔ وہ بابا نانک کے جو کارنامے بیان کررہا تھا، اس کا عمل اسکے برعکس ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور میں خطاب میں کہا کہ پیغمبرانصاف اور انسانیت کا پیغام لیکر آئے، انصاف اور انسانیت انسانوں اور جانوروں کے معاشرے میں فرق کرتی ہے۔ جہاں انسانیت اورانصاف نہ ہو، وہاں صرف طاقت کا راج ہوتا ہے۔ بابا گرونانک کا نظریہ اور فلسفہ بھی انسانیت اور محبت کی بات ہے، یہ انسانوں کو تقسیم کرنے اور نفرتیں پھیلانے کی بات نہیں کرتا۔انہوں نے بابا فرید شکر گنجؒ، نظام الدین اولیاؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ کی مثالیں بھی دیں۔ عمران خان نے سکھ برادری کو بتایا کہ انہیں کرتارپور کی اہمیت کا علم ہے۔ کرتارپور سکھ برادری کا ’مدینہ‘ ہے۔لیڈر نفرت پھیلا کر ووٹ نہیں لیتا۔ عمران خان نے کہاکہ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد بھارتی وزیراعظم کو کہا تھا کہ ’’خطے میں سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے، تجارت اور سرحدیں کھولنے سے خوشحالی آسکتی ہے۔‘‘انہوں نے کہا میں نے نریندر مودی سے کہا تھا کہ ہمارے درمیان کشمیر کا مسئلہ موجود ہے، جسے ہم ہمسایوں کی طرح بات چیت کرکے حل کرسکتے ہیں۔عمران خان نے کہاکہ سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ایک تقریب سے خطاب میں کہاتھا کہ ’’مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کردیا جائے تو برصغیر کا خطہ ابھر سکتا ہے۔‘‘میں نے یہی کچھ مودی سے کہا تھا لیکن اب یہ مسئلہ خطے کی حدود سے نکل کر انسانی حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے، '80 لاکھ لوگوں کے انسانی حقوق ختم کرکے انہیں 9 لاکھ فوج سے بند کیا ہوا ہے۔ اس وقت یہ انسانیت کا مسئلہ ہے یہ زمین کا مسئلہ نہیں، زبردستی ان کا وہ حق لے لیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کی قرادادوں نے انہیں دیا تھا۔بھارتی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اس طرح کبھی امن نہیں ہوگا، انصاف سے امن ہوتا ہے، ناانصافی سے انتشار پھیلتا ہے، کشمیر کے لوگوں کو انصاف دیں اور سارے برصغیر کو اس مسئلے سے آزاد کریں تاکہ ہم انسانوں کی طرح رہ سکیں۔چودہ کروڑ سکھ برادری کی دل کی مراد تو پوری ہوگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ اسی لاکھ مظلوم کشمیریوں کے دل کی مراد کب پوری ہوگی؟؟ کیا سرحدیں کھولنے سے ایسا ممکن ہے؟؟ ایسے دھوکے پہلے بھی کئی بار ہم کھاچکے ہیں؟ محبت کماتے کماتے کہیں کشمیریوں کی نفرت ہماری جھولی میں نہ آگرے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن