تاریخی نقطہ نظر سے آرمینیا اور آذربائیجان کی اقوام کی کہانی سلطنت عثمانیہ سے پھوٹتی ہے۔ مختصر یہ کہ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کی تحلیل کے بعد آذربائیجان اور ارمینی باشندوں کا علاقہ روسی یا ٹرانس یوریشین سلطنت میں آگیا۔ آرمینئیوں اور آذربائیجانیوں کے مابین بنیادی اختلافات مذہب، ثقافت اور زبان کے ہیں۔ ارمینی باشندوں کا تعلق پہلی صدی عیسوی کے بعد سے عیسائیوں کے قدیم ترین قبیلے سے ہے۔ ارمینی چرچ اور اس کے روایت پسند مذہبی پادری کی روایات صدیوں پر محیط ہیں۔ آذربائیجان کے لوگ بنیادی طور پر مسلمان ہیں جن کی شاخیں سلطنتِ عثمانیہ سے جڑیں ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد روسی سلطنت صرف 1922 تک قائم رہی ،روسی انقلاب نے سلطنت کا تختہ الٹ دیا اور کمیونسٹ سوویت یونین کا جنم ہوا۔ مختصر دشمنی کے بعدآرمینیائی اور آذربائیجانی علاقوں دونوں کو سوویت یونین کے اندر متنازعہ ریاستیں بنا دیا گیا۔ ماسکو کے ذریعہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ثالثی ہوئی تھی۔ جب تک سوویت یونین میں شگاف پڑنے شروع نہ ہوئے تھے تب تک امن و ہم آہنگی کا دور برقرار تھا۔ 1988 میںسوویت یونین میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوا اور اس بے چینی کی جھلکیاں خاص کر ناگورنوکاراباخ کے 125000 کی آبادی کے حامل 4400 کلو میٹر کے علاقے میں نظر آئیں۔ 1991 میں آرمینیا اور آذربائیجان دونوں نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کیا اور حکومت کی جمہوری شکل اختیار کی۔ پاکستان آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھاجبکہ آرمینیا کو نئی روسی حکومت کی واضح حمایت حاصل تھی۔
1992 میںآرمینیا اور آذربائیجان کی فوج کے مابین بڑی جنگ ہوئی۔ آرمینیائی باشندوں کو روسیوں کی مدد حاصل تھی انہوں نے دونوں ممالک کے سرحدی علاقے ناگورنو کاراباخ میں اکثریتی کنٹرول حاصل کرلیا۔ فوجی اور سویلین دونوںطرح کی ہلاکتیں ہوئیں ۔ جب تک اقوام متحدہ اور یورپی کمیشن کسی معاہدے پر عمل پیرا ہوسکتے تھے، آرمینیوں نے خطے میں یک طرفہ ریفرنڈم کرایا اور ناگورنوکاراباخ کے آرمینیا سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کا نام جمہوریہ آرٹسخ رکھنا تھا جسے کسی بھی قوم نے تسلیم نہیں کیا ۔ یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہوا ۔ سن 2020 میں آرمینی فوج کی بھاری شیلنگ اور ڈرون حملوں میںآذربائیجان کی فوج کے سینئر افسران اور جوان مارے گئے جس نے موجودہ جاری تنازعہ کو جنم دیا ۔ آج تک آرمینیا کی مجموعی آبادی 2.9 ملین اور آذربائیجان کی آبادی 9.9 ملین ہے لیکن فوجی صلاحیت تقریبا ًبرابر ہے، جو ہر لحاظ سے ایک خطرناک بات ہے۔
جیو اسٹریٹجک نقطہئِ نظر سے، مختلف اتحادوں کا غیرجانبدار تجزیہ ضروری ہے۔ تنازعہ کے آغاز سے ہی ترکی آذربائیجان کی حمایت کرتا رہا ہے کیونکہ اس نے آرمینیا کی حمایت میں روس اور یورپی ممالک کے اثر و رسوخ کا مشاہدہ کیا ہے۔ انڈو یوروپی ثقافت اور مذہبی بنیادوں پر 1990 کی دہائی میں آذربائیجانی باشندے ناگورنو کاراباخ تنازعہ میں ملوث ہوئے تھے۔ مزید برآں آزادی کے بعد آرمینیا نے سابق عثمانی سلطنت پر آرمینی نسل کشی کا الزام لگایا جس میں کئی ممالک نے ترکی کے موقف کاساتھ دیا، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس کے برعکس مسئلہئِ کشمیر کی طرح اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری ناگورنوکاراباخ تنازعہ میں عملی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس خطے میں بسنے والے آذربائیجانیوں کا بار بار آرمینیائی فوج نے قتل عام کیا ۔ مسلم آبادی کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھاگیا۔ پاکستان نے آذربائیجان کی مکمل حمایت کی کیونکہ وہ انصاف کے تقاضوںسے آگاہ ہے۔ دوسری طرف آذربائیجان نے ہمیشہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کیخلاف آواز میں پاکستان کی حمایت کی ہے۔ترکی اور پاکستان ہر سال اپنے ثقافتی اور سفارتی تعلقات کو بہتر بنا رہے ہیں۔ اردگان نے پاکستان اور ترکی کے مابین مشترکہ اقدار، عقیدے اور روایت کی بنیاد پر اتحاد کے ایک نئے باب کی طرح ڈالی ہے۔ ترک رہنماؤں نے اقوام متحدہ میں اور بھارت کے خلاف پاکستان کے حق میں بار بار بات کی ہے۔
سری لنکا میں تامل دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج نے مہارت، اسلحہ اور مدد فراہم کی۔ اس کے نتیجے میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات تاریخ کے بلند مقام پر ہیں۔ یہ اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ سری لنکا چینی اوبورمنصوبے میں اسی باعث جڑا ہوا ہے۔ پاکستان اور سری لنکا دونوں چینی تجارتی اقدام کے کلیدی شراکت دار ہیں۔ آذربائیجان کے معاملے میں، ترکی کا اسٹریٹجک مفاد اور مسلمان بھائی ہونے کا رشتہ بنیادی وجوہات ہیں۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے آذربائیجان کو اسلحہ، فوجی مہارت اور سفارتی مدد فراہم کی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ باکو ،ترکی اور پاکستانی جھنڈوں سے بھرا ہوا تھا۔ تعلقات کی اس ساری توسیع میں یہ واضح رہے کہ آذربائیجان اس خطے میں معدنیات، دھاتوں اور ایندھن کے ذخائر کا گڑھ ہے۔ یہ ایک اہم عنصر ہے جو ضرورت کی اس گھڑی میں آذربائیجان کی حمایت کرنے والے ممالک کے لیے پرکشش ہو گا۔ آذربائیجان کے صدر نے پاکستانی عوام کا ان کی مدد کے لئے بار بار شکریہ ادا کیا ہے۔
پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ چین اور ترکی جیسے اس کے کلیدی حلیف میدان پر میدان مار رہے ہیں۔ گوادر میں، پاکستان وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ایک ہی تجارتی راہ میں جوڑنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ گوادر میں سٹیٹ آف دی آرٹ بحری اڈے اور اوبو ر کے میری ٹائم کے ساتھ ساتھ روڈ نیٹ ورک پر بھی نگاہ رکھی جائے گی۔ باہمی مفادات کے تحت، پاک بحریہ کی چینی فوج کی مدد سے تعمیرِ نو کی جارہی ہے۔ اب بہت سے ممالک پاکستان سے اسلحہ خرید رہے ہیں۔ پاکستان کے پانیوں کے تحفظ کے لئے نو تعمیر شدہ مڈجیٹ آبدوزیں انتہائی موزوں رہیں گی۔ ناگورنوکاراباخ ایشو پر حکومت پاکستان کی وابستگی اور اس کا اعتماد عوامی امنگوں کا ترجمان ہے۔ اس طرح کے اعتماد کو صرف ذہین پالیسیوں، اتحاد اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ ایسے سفارتی اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک صرف چل نہیں رہا بلکہ ترقی پذیر ہے۔ پاکستان اپنے جیو اسٹریٹجک تعلقات کو محفوظ بنا رہا ہے اور احتیاط کے ساتھ وہ ایسا کررہا ہے جب وہ برادر ممالک کو جارحیت سے بچائے گاتو یقینی طور پر ایسے اتحاد بنائے گا جومشکل امتحانوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔