نظریہ پاکستان اور ہمارابلدیاتی نظام 

Nov 14, 2020

منیر احمد خان

پاکستان میں وہ آزاد اور حقیقی بلدیاتی نظام کبھی بھی پروان نہیں چڑھا جو اس ملک کے لیے ناگزیر تھا ۔ 1958 میں مارشل لا کے بعد بلدیاتی نظام کی بنیاد تو ڈالی گئی لیکن ہماری فوجی اشرفیہ بھی نظریہ پاکستان کی حقیقی ضرورت اور بنیادی جمہوری نظام کی حقانیت سے نابلد تھی اس لیے انہوں نے بھی دو قومی نظریے کو پیش نظر نہیں رکھا قوموں کا مزاج اور عمل تربیت کا مرہون منت ہوتا ہے ہمارے اکابرین وہ پالیسی ، لائحہ عمل ، اور منصوبہ نہ بنا سکے جس سے قوم تربیت کے مراحل سے گذرتی اور حد تو یہ ہے کہ ہماری پہلی سیاسی اور فوجی حکومتیں نظریے پاکستان کی حقیقی پاسبانی نہ کر سکیں اور انہیں دو قومی نظریہ سے دوری کا المیہ بنگلہ دیش کی عبرت ناک صورت میں نظر ا ٓیا جو ہمارے مقتدر حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے تھا انہیںیہ بات سمجھ نہیں آئی کہ نظریے سے بیگانگی ملکی سلامتی کے لیے انتہائی سنگین مسئلہ ہوتی ہے میرا مشاہدہ ہے کہ آج بھی نظریے پاکستان سے ارباب اختیار کی بے اعتنائی لوگوں میں حب الوطنی کے جذبے کو مجروح کر رہی ہے جو تشویش ناک امر ہے کسی بھی ملک کی عوام کے روز مرہ اور دیگر سماجی مسائل کا حل بلدیاتی نظام میں مضمرہوتا ہے یہ مت بھولیں دیگر ضروریات کی طرح نظریہ پاکستان بھی پاکستانی قوم کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے جس سے ان کی سلامتی وابستہ ہے موجودہ حالات میں بھی اس امرپر کسی کی نظر نہیں جا رہی پاکستان میں خصوصاً دیہی علاقوں اور قصبوں میں دو قومی نظرے کا قحط پڑا ہوا ہے جب کہ ہماری کثیر آبادی کا تعلق دیہات سے ہے ہم اپنی سیاست،فرقہ واریت ،صوبائیت ،لسانیت وغیرہ میںنظریے پاکستان کے تقاضے ہی بھول گئے جس ملک میں نظریہ کا فقدان ہو جائے وہاں اس کیفیت کو سنبھالنے کے لیے ہمہ گیر نوعیت کے لائحہ عمل بنانا ہوتے ہیںآج ریاست پاکستان کو بلدیاتی نظام میں حقیقی نظریاتی کونسلروں کی ضرورت ہے آپ پورے ملک میں گھوم کے نظریے پاکستان کے بارے میں پوچھ لیںدس فیصد بھی جواب نہ دیں پائیں گے نظریے کی بے توقیری قوم کو ریاست سے بیگانہ بنا دیتی ہے اور قوم کی ریاست سے اجنبیت ہولناک قومی اور سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے ملک دشمن قوتیں اپنے معاشی مفادات کی خاطر ہر حربہ استعمال کررہی ہیں پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات اس امر کا تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمارے اکابرین جدید تقاضوں اور بدلتی ہوئی عالمی صورت حال کے پیش نظربلدیاتی نظام میں صوبائیت،لسانیت،عصبیت اورقومیت کے زہر کا تریاق تلاش کریں ملک سے محبت کا کام عوام کی صوابدید پر نہ چھوڑ یں حکومت ریاست سے محبت کا درس وتربیت دینے کی ذمے داری خود نباہے دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تبدیلیاں اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم امکانی جنریشن وار سے بچنے کے لیے از سر نونظریے پاکستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں ہمارے مقتدر حلقے بلدیاتی نظام میں ازسر نو ایسی تبدیلی کریں جس سے اس نظام سے نظریہ پاکستان کو قوت ملے حکومتی سطح پر نیبر ہڈ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر کروانے کا اہتمام ہو رہاہے جو کسی طور بھی ہماری سماجی کیفیت سے میچ نہیں کرتا آج کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے جس کے لیے بلدیاتی ممبران یہ اہم فریضہ بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں یہ طے شدہ بات ہے کہ سیاسی جماعت کا رکن نظریاتی ہوتا ہے اس کی اساس حب الوطنی سے مشروط ہوتی ہے سیاسی جماعتوں کا منشور ہوتا ہے ایک لائحہ عمل ہوتا ہے جسے پڑھ کر عوام اس کے ممبر بنتے ہیں جبکہ غیر جماعتی لوگ بنیادی طور پر اتنے نظریاتی نہیں ہوتے جتنی آج ضرورت ہیضیاء الحق کے بلدیاتی سطع پر ہونے والے غیر جماعتی الیکشن نے پاکستان میںانتہائی منفی اثرات مرتب کیے تھے غیر جماعتی انتخابات میں لوگ پیسہ خرچ کر کے الیکشن جیتتے ہیں اور اقتدار میں آ کر لگے ہوئی رقم کو سو سے ملٹی پلائی کرتے ہیں ۔ وطن عزیز میں جماعتی الیکشن ہر طرح سود مند رہیں گے پاکستان کو موجودہ وقت میں داخلی و خارجی سطع کئی چیلنجز در پیش ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم بلدیاتی سطح پر ملک کی مضبوطی کے لیے کیا کر سکتے ہیں اس کے لیے فوری طور پر اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہمیں بلدیاتی سطح پرکن کن معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ہمارے حقیقی مقتدر حلقوں کو فوری طور پر قوم کو وہ لائحہ عمل دینے کے لیے ایک پیج پے سر جوڑناہو گا جس میں کسی طرح بھی ملکی سلامتی کے تقاضے متاثرنہ ہوں اس کے لیے لوکل باڈی نظام میں میں ایسی آئینی شقوں میں اضافہ کرنا ہوگا جس سے چیرمین اور کونسلر ہر عام و خاص کو نظریے پاکستان روشناس کراتے نظر آئیں وطن عزیز میںاس امر کا خصوصی اہتمام ہو کہ بلدیاتی سطح پر جناح ہال کے ساتھ ساتھ ہر یونین کونسل میں یوم پاکستان سے متعلقہ تقریبات کے پروگرام مرتب کئے جائیں وہ کتنا روح پرور منظر ہوگاجب پاکستان بھر کی ہزاروںیونین کونسلوں میں بے یک وقت یوم پاکستان اور قائد اعظم ڈے منایا جا رہاہو گا جس سے ہماری نئی نسل یقینی طور پر فیض یاب ہوگی اور ہمارے ہزاروںبلدیاتی عہدیداران وطن عزیز کے محافظ بن کے ملکی سلامتی کے نقیب بنیں گے۔

مزیدخبریں