گذشتہ دنوں ایک تہلکہ خیز خبر نے میڈیاپرکئی روزتک خوب راج کیا،یوںلگا جیسے ملک میں اور کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں ، اس شور و غوغا کی وجہ مزارِ قائد پر ہونے والی ہلڑ بازی تھی جس کا سہرا نون لیگ کی نائب صدر مریم صفدر کے شوہرکپٹن صفدر نے اپنے سر سجانے کی کوشش کی جسے عوام کی اکثریت نے نہ صرف نا پسند کیا بلکہ اسے مزارِ قائد کی بے حرمتی سے تعبیر کیا، سوشل میڈیا پر تو گویا ایک طوفان بد تمیزی برپا ہوا ،یہ پہلا موقع نہیں کہ کپٹن صفدر بلا وجہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوئے،جب سے میاں صاحب عدالت سے نااہل ہوئے تب سے ان کا جوش و ولولہ دیکھنے کے لائق ہے،وہ نہ جانے اپنی زوجہ کو خوش کرنے کیلیے یہ سب کچھ کرتے ہیں یا اپنے سسر سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں،یہ کام کوئی جوشیلاورکرکر تا تومعیوب نہ لگتا، نون لیگ کی نائب صدر مریم صفدرکیPDMکے جلسے سے خطاب کیلیے کراچی آمد کے بعد کارکنوں کے جلوس میں مزار قائد پر حاضری سے وہ نا خوشگوار واقعہ رونما ہوا جس پرکئی دن تک میڈیاکی دال روٹی خوب چلی ’قائداعظم مزار پروٹیکشن اینڈ مینٹینینس آرڈیننس 1971‘کے تحت بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے مزار کو ’قومی ورثہ‘ قرار دیاگیا ہے اسے کسی قسم کا نقصان پہنچانااور یہاں کسی قسم کی سیاسی سر گرمی منعقد کرنا ، قانوناً جرم ہے، جس کی سزا تین سال تک قید ہے۔کپٹن صفدر سمیت دیگر افراد پر اسی قانون کی خلاف ورزی کی پاداشت میں مبینہ طورپر ایف آئی آربنتی تھی،کہ انہوں نے قبر کے مخصوص احاطہ کے اندرپہنچ کرمزار کے تقدس کو پامال کیا، سیاسی نعرے بازی کی ، قائد کی قبر کے احاطہ میں صرف پاؤں کی طرف فاتحہ خوانی کیلیے قاری کو کھڑے ہونے کی اجازت ہے، جبکہ مریم صفدر سمیت متعدد افراد جنگلے کے اندر تک پہنچ گئے، جو کسی طور بھی مناسب نہیںتھا ،بلکہ مزار کا تقدس پامال کرنے کے متر ا دف ہے ۔ جذباتی انداز میں سیاسی نعرے بازی دوسرا ناپسندیدہ قدم تھا،رسوائی کی بات ہے کہ یہ منظر لائیو کوریج کی صورت میں ہر کسی نے دیکھا،اس پر قانونی تقاضا تو یہ تھا کہ مزار کے تقدس کو بحال رکھنے والے موقع پر ایکشن لیتے، وہ کسی مصلحت کا شکار ہوئے تو سندھ پو لیس کی قانونی ذمہ داری تھی جس سے چشم پوشی کی گئی، سندھ حکومت کو معاملے کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے تھا مگر اس نے یہ کہہ کر اپنی قانونی ذمہ داری سے پہلو تہی کی ’کہ گھر آ ئے مہمان کی عزت ہم پر فرض ہے‘ذمہ داران کی تمام تر مجرمانہ غفلت کے بعد سندھ ہائی کورٹ یا پھرسپریم کورٹ کا از خود نوٹس لینا بنتا تھا، ذمہ داری تو وفاقی حکومت کی بھی تھی، مگر اس کے کسی بھی ایکشن کو اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا جاتا اور الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے کہ احتساب کے عمل کو لے کر وہ پہلے ہی اپوزیشن کے نشانے پر ہے۔پولیس کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار اور ذمہ دارران کے خلاف کسی کاروائی سے چشم پوشی پر رینجر اور ISI کی مبینہ مداخلت پر کپٹن صفدر کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج ہوئی بلکہ انہیں علی الصبح گرفتار کیا گیا، جس پر میڈیا نے اپوزیشن کے بیانیہ کو لے کر خوب شور و غوغا کیا، اور آئی جی کے اغوا کا بیانیہ شد ومد سے زیر بحث آیا(بلکہ لایا گیا)جس پر آرمی چیف نے ، کور کمانڈر کراچی کو تحقیقات کا حکم دیا ، گذشتہ روز انکوئری رپورٹ آئی جس نے سب کو حیران کر دیا۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اس رپورٹ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ متعلقہ ذمہ داران کو’ مکھن سے بال کی طرح‘ نکال باہر کیا گیا، گویا مزار قائد کی بے حرمتی یا تقدس کی پامالی کوئی بات ہی نہیں، اس اقدام سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ کپٹن صفدر ، مریم صفدر اور دیگر رہنماؤں، سندھ پولیس، آئی جی سندھ یا سندھ حکومت کو ذمہ دارویوںسے بری الزمہ قرار دینا ، اپوزیشن کو مصالحت کاکوئی پیغام تو نہیں؟یایہ اعتراف جرم ہے کہ اس مافیا کے سامنے تمام ادارے بے بس ہیں؟ اگر یہ بات سچ ہے توبات ہے رسوائی کی۔۔!
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی
Nov 14, 2020