گلگت بلتستان میں انتخابی مہم زور و شور سے جاری رہی۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابی میدان میں کامیابی کے لیے عوام سے براہ راست رابطے میں رہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلائی ہے۔ عوام نے جلسوں میں بھرپور شرکت سے انتخابی سرگرمیوں میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اسی تناسب سے پولنگ کے دن بھی دلچسپی دکھائی گئی تو یہ جمہوریت کے مستقبل اور ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہو گا۔ انتخابات سے پہلے بڑے بڑے جلسے انتخابی روایات کا حصہ ہیں۔ تینوں جماعتیں اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں لیکن کامیابی صرف پاکستان تحریکِ انصاف کو ملے گی پچاس فیصد سیٹیں پی ٹی آئی جیتے گی جبکہ تیس سے چالیس فیصد سیٹوں کر پاکستان پیپلز پارٹی کو ملیں گی میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے نظر آنے کے امکانات کم ہیں۔ گلگت بلتستان کے الیکشن سے ایک مرتبہ پھر عوام کرپٹ عناصر کے خلاف ووٹ کاسٹ کریں گے، گلگت بلتستان کے عوام ایک مرتبہ پھر کرپٹ اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف ووٹ دیں گے۔ یہ انتخابات بنیادی طور پر کرپٹ عناصر اور لوٹ مار ذہنیت کے خلاف عوام کا فیصلہ ثابت ہوں گے۔ گوکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ مسائل دور کرنا تو دور کی بات ہے پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اس تکلیف اور بیقابو مہنگائی کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام سیاسی مافیا کو مسترد کریں گے۔ تیار رہیں کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتیں روایتی سیاست کی طرف بڑھ چکی ہیں انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا گیا ہے اس شور میں شدت آئے گی اور ناکامی کو دھاندلی کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی جائے گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام آزمائے ہوئے ناکارہ اور لوٹ مار کے نئے نئے رجحانات کو فروغ دینے اور ملک کے سیاسی کلچر کو آلودہ کرنے والوں کے خلاف فیصلہ دیں گے۔
ابھی الیکشن ہوا نہیں ہے جنہیں اپنی شکست نظر آ رہی ہے انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کبھی انہیں اپنی جیت پیشگی نظر آیا کرتی تھی اب وقت بدلا ہے تو انہیں ناکامی ہیشگی نظر آ رہی ہے۔ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اب گلگت بلتستان کے عوام ہر مرتبہ بے وفائی کرنے والوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اس لیے دیوار پر لکھی شکست دیکھ کر پہلے سے ہی چیخ و پکار کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ چیخ و پکار ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے یہ آئندہ جہاں کہیں بھی ملک میں انتخابات ہوں گے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کو ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا کیونکہ پاکستان کے عوام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ کسی صورت ان ناکام سیاست دانوں کا ساتھ نہیں دیں گے، پاکستان کے عوام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ کسی ملکی معیشت کو کمزور کرنے والے افراد پر بھروسہ نہیں کریں گے، پاکستان کے عوام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ کسی صورت ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسانے والے افراد کو دوبارہ موقع نہیں دیں گے، پاکستان کے عوام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ کسی صورت منی لانڈرنگ میں ملوث افراد، ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والے، عوام کا خون چوس کر اربوں روپے کی جائیداد بنانے والوں کو ایوانِ اقتدار میں نہیں بھیجیں گے۔ دہائیوں تک ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والوں کو میدان سیاست میں رسوا کرنے کا فیصلہ عوام نے دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں کیا تھا اور وہ آج تک اس فیصلے پر قائم ہیں گوکہ عام آدمی کو پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سے بہت گلے شکوے ہیں لیکن اس کے باوجود عام آدمی پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ کھڑا ہے، عام آدمی عمران خان کے نظریے کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے حکمران طبقے کو ملک و قوم پر رحم نہیں آیا لیکن عوام نے کرپٹ ٹولے کو ناک آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور گلگت بلتستان میں کے انتخابی نتائج یہ ثابت کریں گے کہ تبدیلی آ چکی ہے یہ سوچ کی تبدیلی ہے، یہ فکر کی تبدیلی ہے، یہ خیالات کی تبدیلی ہے، یہ احساسات کی تبدیلی ہے، یہ احساسات کی تبدیلی ہے۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست کا نیا دور شروع ہوا ہے اور یہ دور کرپشن کے خاتمے کا ہے، یہ دور کرپٹ عناصر کے خاتمے اور انہیں جڑ سے اکھاڑنے کا ہے یقیناً عوام کی غیر مشروط لگن سے ملک میں شفاف انداز حکمرانی کے خواب کو تعبیر ملے گی۔ آج تکلیف برداشت کرنے والوں کو مستقبل میں آسانیاں میں ملیں گی۔ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی فتح یہ ثابت کرے گی کہ ملک میں تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔
گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف نے جن لوگوں بھیجا تھا اس سے بہتر لوگ جماعت میں موجود تھے، اس سے بہتر مقرر، سنجیدہ اور وضعدار افراد موجود تھے لیکن ایک غیر سنجیدہ شخص کو وہاں بھیجا تھا جس نے انتخابی مہم کم چلائی اور تنازعات زیادہ پیدا کیے۔ ایسے حساس معاملات میں پی ٹی آئی کو نسبتاً بہتر شخص کی ضرورت تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی کراؤڈ پلر نہیں تھا۔ایسا شخص جسے قومی سطح کی سیاست اور گفتگو کا تجربہ نہ ہو ایس بالکل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جس شخص کو بھیجا گیا اس نے ناصرف اپنی شخصیت بارے غیر سنجیدہ تاثر کو تقویت پہنچائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جماعت کے لیے بھی مسائل کا باعث بنا ہے۔ یہی وہ مسائل ہیں جن پر پی ٹی آئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بڑے بڑے مسائل اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ حکومت کو کراؤڈ پلر کے ساتھ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت، بیروزگاری، لاقانونیت، مہنگائی نے جینا مشکل کر رکھا ہے حکومت اس طرف چند فیصد توجہ بھی دے تو بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔
جب ہم عوامی مسائل یا حکومتی کارکردگی کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں رکھیں کہ اس میں سب سے پہلا نمبر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا ہے۔ ایک ایسا شعبہ جس میں حکومت بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ان حالات میں کہ جب گلگت بلتستان میں انتخابات ہو رہے ہیں یہاں دو ہفتوں میں مرغی کے گوشت کی قیمت میں چالیس روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔اس ہفتے کی قیمتوں کا گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اکاون بنیادی اشیا کی قیمتوں میں سے اڑتیس اشیاء کی قیمتوں میں چھیاسی فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور حکومت ان حالات میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔رواں ہفتے چکن، گھی، چینی، آلو، دال ماش، دودھ، دہی، انڈوں، بیف، سمیت کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اٹھارہ بنیادی اشیا گیارہ فیصد تک مہنگی ہو گئیں۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق رواں ہفتے کے دوران چکن کی اوسط قیمت میں مزید بائیس روپے سینتالیس پیسے فی کلو جب کہ دو ہفتوں میں چالیس روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران چینی، آلو، دال ماش، دودھ،، دہی، انڈوں،گھی، بیف اور کیلے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ہفت روزہ بنیاد پر مہنگائی کی اوسط شرح رواں ہفتے سات اعشاریہ سات فیصد رہی تاہم کھانے پینے کی اشیا زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے غریب طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح نو اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی ہے اور یہ وہ حالات ہیں جب حکومت گلگت بلتستان کے عوام سے ووٹ مانگ کر انہیں بہتر مستقبل کے خواب دکھا رہی ہے ان حالات میں وہاں کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر جو اخلاقی دباؤ آنا ہے وہ صرف اور صرف کارکردگی سے ہی اتارا جا سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی حکمت عملی تبدیل کرتی ہے یا پھر ایسے ہی آگے بڑھے گی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد یاد رکھنا چاہیے کہ دوبارہ اس عمل کے کیے دوبارہ عوام کے پاس جانا ہے اور ہر مرتبہ صرف وعدوں سے کام نہیں چل سکتا۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے۔ مولانا دل بڑا کر لیں کیونکہ انہوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا نا ہی انہوں نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق حاصل کیا ہے۔ جن لوگوں سے انہیں امیدیں ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے کوئی پلیٹ فارم استعمال کریں گے وہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیں گے اور مولانا کو تو بالکل خبر نہیں ہونے دیں گے وہ ناصرف مذاکرات کر لیں گے بلکہ نئے معاہدے بھی کر لیں گے اپنا راستہ نکالنے کے لیے مولانا سمیت کسی کا بھی راستہ بند کر دیں گے۔ اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ اگر مولانا کو یہ موقع ملتا ہے تو وہ بھی اپنے اتحادیوں کو ہوا نہیں لگنے دیں گے اپنے معاملات طے کریں اور سب کو دھوکا دیں گے بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے زمانے میں جنرل پرویز مشرف کو ووٹ دیتے وقت سب کو دھوکا دیا تھا سو دیکھتے جائیں سب باری باری واپس وہیں پہنچیں گے جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا اور کہتے رہیں گے یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے۔