"Pakistan Bangladesh  Brotherhood! "  (2)

Nov 14, 2020

اثر چوہان

’’میرا دورہ ٔ یورپ ومتحدہ امارات !‘‘
معزز قارئین ! قبل ازیں ستمبر سے نومبر 1981ء تک صدر جنرل محمد ضیاء اُلحق کی طرف سے مجھے یورپ و متحدہ امارات میں مقیم ’’ فرزندان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ کے سماجی ، معاشی و معاشرتی حالات کی آگاہی کے لئے دو ماہ کے لئے ، برطانیہ ، ڈنمارک ، ہالینڈ ، مغربی جرمنی اور متحدہ امارات کے دورے پر بھجوایا تھا۔ اُن ملکوں میں پاکستانی سفیروں اور دوسرے سفارتکاروں کے علاوہ مختلف پاکستانی تنظیموں نے مجھ سے بے حد تعاون کِیا، خاص طور پر ’’ پاکستان ،بنگلہ دیش ‘‘ کے تعلقات کے بارے میں ۔ 
واپسی پر مَیں نے اپنے روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ کا ضخیم انگریزی ایڈیشن بھی شائع کِیا ، جس پر جنابِ محمود علی نے اُس ایڈیشن کو کئی ملکوں میں بھجوایا اور اور تحریک پاکستان کے دو کارکنوں ( میرے دوستوں ) لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (چیئرمین پیمرا ، عزیزم ،پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد مرحوم ) اور پنجابی و اردو کے نامور شاعر اور روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن برادرِ عزیز سعید آسی ؔ کے والد محترم ، پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم (مرحوم) نے بھی ۔ 
’’میرا دورہ سوویت یونین! ‘‘ 
23 دسمبر1986ء کو  مجھے سوویت یونین کے محکمہ اطلاعات "Novosty Press Agency" نے مجھے ماسکو، آذر بائیجان اور آرمینیا کے ایک ماہ کے دورے پر مدّعو کِیا ، جس پر مَیں نے ’’ دوستی کا سفر ‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی تھی لیکن، مَیں آج کی نشست میں ، صرف یہ بیان کر رہا ہُوں کہ ’’ مَیں نے پاکستانیوں کے ساتھ اپنے (بچھڑے ہُوئے بھائیوں / بہنوں ) بنگلہ دیشیوں کا حال چال پوچھنے اور سننے میں بہت دلچسپی لی۔اُس پر بھی مَیں نے جناب محمود علی اور اپنے کئی بزرگوں اور دوستوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی! 
’’ چاچا بختاوری ؒ! ‘‘
معزز قارئین ! چکوال ، امرتسر او سرگودھا کے تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) چاچا غلام نبی بختاوریؒ 1947ء میں ہجرت کے بعد امرتسر سے سرگودھا آباد ہو گئے تھے جہاں اُن سے میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان سے دوستی ہو گئی تھی، پھر مجھ سے بھی! ۔ مَیں اُن دِنوں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا۔ 1963ء میں چاچا بختاوری نے اپنا کاروبار سرگودھا سے راولپنڈی منتقل کرلِیا تھا۔ 1973ء سے جب مَیں نے اپنا روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ جاری کِیا تو میرا چاچا بختاوری اور اُن کے فرزند ِ اوّل ، چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم ‘‘ اسلام آباد برادرِ عزیز ظفر بختاوری سے بھی دوستی ہوگئی تھی، پھر چاچا بختاوری اور ظفر بختاوری کی وساطت سے میری جناب محمود علی سے قربت بڑھتی گئی۔
’’ راجا تری دیو رائے !‘‘ 
بنگلہ دیش قائم ہونے سے پہلے چیئرمین "Pakistan Buddhist Society" ۔ ’’ چکما قبیلہ ‘‘ (Chakma Tribe) کے راجا ، تری دیو رائے نے پاکستان کو اپنا وطن بنا لِیا تھا۔ راجا صاحب تاحیات وفاقی وزیر رہے۔ برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے اُن سے میرا تعارف کرایا ۔ میری راجا صاحب سے ’’ پاکستان کلچرل فورم ‘‘ کی کئی تقاریب میں ملاقات ہوئی۔ ایک بار راجا صاحب برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے ساتھ میری مزاج پرسی کے لئے اسلام آباد میں بھی میرے گھر تشریف لائے تھے ۔ راجا تری دیو رائے 17 ستمبر 2012ء کو انتقال کر گئے تھے ۔ پاکستان اور اہل پاکستان اُن سے بہت محبت کرتے تھے ۔ 
’’سیّد انور محمود ! ‘‘ 
معزز قارئین ! انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن سیّد انور محمود سے میرا 1973ء میں تعارف ہُوا تھا، جب موصوف وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں وفاقی وزیر عیدالحفیظ پیرزادہ کے "P.R.O" تھے لیکن میری انور محمود صاحب سے اُس وقت دوستی ہُوئی جب وہ 1992ء میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے پریس سیکرٹری تھے ۔ جناب محمود علی اور راجا تری دیو رائے سے انور محمود کی گہری دوستی تھی جس سے مجھے بھی ، بہت اچھا لگتا تھا۔ سیّد انور محمود کہا کرتے ہیں کہ ’’ مَیں نے پاکستان کے لئے دو بار ہجرت کی ۔ ایک بار اپنے والدین کے ساتھ بہار ؔ سے ڈھاکہ ؔ اور دوسری بار 1971ء میں ڈھاکہ سے کراچی۔ سیّد انور محمود کے بزرگوں نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ 
’’ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمشنر ! ‘‘ 
سیّد انور محمود ، کئی صدور اور وزرائے اعظم کے دَور میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات رہے ۔ اُن کی ریٹائرمنٹ سے پہلے صدر جنرل پرویز مشرف نے جب اُنہیں ڈھاکہ میں ’’ پاکستان کا ہائی کمشنر ‘‘ مقرر کِیا تو ہماری وزارتِ خارجہ نے روڑا اٹکایا کہ ’’ سیّد صاحب کا وزارت خارجہ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا‘‘ دوسری طرف بنگلہ دیش کی حکومت بھلا کسی ایسے بہاریؔ کوڈھاکہ میں ’’ پاکستان کا ہائی کمشنر‘‘ کیسے مقرر کرسکتی تھی ؟ جو، بنگالی ادب و تاریخ کا سکالر اور بنگالی زبان روانی سے بول سکتا ہو؟۔ 
’’ جنابِ مجید نظامی اور سیّد انور محمود ! ‘‘ 
سیّد انور محمود ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب مجید نظامی کی زندگی میں قومی اور سماجی تقاریب میں "Living Legend" کہا کرتے تھے۔ 2003ء میں جنابِ مجید نظامی نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں ’’ بھائیوںکا باہمی رشتہ ، قُرب ، برادرانہ دوستی اور رفاقت ‘‘ (Pakistan Bangladesh Brotherhood!)۔قائم کی تو اُس وقت سے سیّد صاحب اندرون اور بیرون ملک ’’ فرزندان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ میں اُس کے مقاصد کو عام کر رہے ہیں ۔ جنابِ مجید نظامی نے اپنے وصال (26 جولائی 2014ء ) سے کچھ دِن پہلے اُنہوں نے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘ ‘ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف کو اِس کا چیئرمین مقرر کردِیا تھا۔ برادرِ عزیز سیّد شا ہد رشید تو پہلے ہی اِس تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔  (جاری) 

مزیدخبریں