"تشدد پسند اسد عمر اور افغانستان کے مسائل؟؟؟؟

کٹ"  کے اوپر پیش لگا دی جائے تو پھینٹی کے معنی بنتے ہیں اور اگر زبر لگا کر پڑھا جائے تو سکوئر کٹ، ہیئر کٹ، سمارٹ کٹ، شارٹ کٹ، لیٹ کٹ، اپر کٹ اس طرح کئی کٹ لگا کر جہاں آپکا دل چاہے گھوم جائیں چونکہ حکومت تحریکِ انصاف کی ہے جنہیں زعم ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کا کامیاب دھرنا دیا آج انہیں اسی دھرنے سے خوف آ رہا ہے۔ حکمراں جماعت کے وزیر اسد عمر میڈیا پر برسے ہیں۔ کاش گرجنے برسنے سے پہلے وہ حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیتے اگر آزاد تجزیہ جاننا چاہتے تو کسی بازار میں نکل جاتے تاکہ انہیں علم ہوتا کہ عام آدمی حکومت بارے کیا رائے رکھتا ہے۔ حکومت کو برا بھلا ناقص پالیسیوں کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کوئی بتائے اس میں میڈیا کا کیا قصور ہے۔ اگر پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے تو میڈیا کیا یہ کہنا شروع کر دے کہ پیٹرول سستا ہو گیا ہے تو کون مانے گا۔ اگر ڈالر مارکیٹ میں ایک سو اسی روپے کا ہو جائے تو کیا میڈیا کے کہنے سے وہ اسی روپے کا ہو جائے گا، اگر بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ تو کیا میڈیا یہ کہنا شروع کر دے کہ ایسا کچھ نہیں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے تو میڈیا کیسے کہے کہ حکومتی اقدامات سے بجلی کی قیمت میں تاریخی کمی واقع ہوئی ہے۔
اسد عمر کو چاہیے کہ اپوزیشن اور میڈیا کو دھمکیاں دینے سے پہلے اپنے دھرنے پر توجہ دیں کیا انہیں کسی نے دھمکیاں دی تھیں، کیا اس وقت میڈیا تحریکِ انصاف کے دھرنے کی کوریج نہیں کرتا تھا۔ اسد عمر کا یہ کہنا کہ میڈیا والے پی ڈی ایم والوں کے سہولت کار ہیں نہایت نامناسب ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے وقت میڈیا نے یہ سہولت اسد عمر کی جماعت کو بھی دی تھی۔ کیا اس وقت میڈیا میں تحریک انصاف کے سہولت کار تھے۔ 
اسد عمر کہتے ہیں کہ 'لانگ مارچ کا سوچنا بھی نہ یہاں ہجوم دیکھو ، یہاں آؤ گے تو بڑی کْٹ پڑے گی۔ ’خان جھکا نہ ڈرا، پہلے مودی نے للکارا تو دو جہاز گرائے، نواز شریف بیٹوں اور سمدھی سمیت بھاگ گئے ہیں، عوام کا پیسہ لندن فلیٹوں کے لیے نہیں یہ پیسے عوام کے لیے ہے"۔
یہ باتیں سنتے سنتے ڈالر ایک سو بیس سے ایک سو اٹھہتر کا ہو گیا، چینی پچپن سے ڈیڑھ سو کلو ہو گئی، پیٹرول بھی دو سو روپے فی لیٹر ہو جائے گا۔ اسد عمر اس کا جواب دیں عوام پر یہ بوجھ ڈالنے کا حساب کون دے گا۔ اگر عوام نے ذمہ داروں کو "کٹ" لگانا شروع کر دی تو کیا ہو گا۔ وفاقی وزیر کہتے ہیں پاکستان میں ترقی ہورہی ہے ساری دْنیا سے بہتر معیشت چل رہی ہے۔ احساس راشن کارڈ ہر دوسرے سے تیسرے گھرانے کو دیا جائے گا۔ مہنگائی پہلی دفعہ نہیں ہوئی ، آپ کا لیڈر درد رکھتا ہے۔
ان سے کوئی پوچھے اگر مہنگائی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی تو پھر چند سال پہلے تک پی ٹی آئی مہنگائی کے خلاف جلوس کیوں نکالتی تھی۔ وزیر موصوف قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر پیٹرول مصنوعات پر لگنے والے ٹیکسوں پر تقریریں کر کے عوام کو دھوکا کیوں دیتے رہے۔ جہاں تک وزیر اعظم کے درد کی بات ہے ان کا درد تو کسی کو نظر نہیں آتا لیکن جس درد، کرب اور تکلیف میں پاکستان کے ستانوے فیصد لوگ مبتلا ہیں وہ تین فیصد کے علاوہ سب پر عیاں ہے۔ وزیراعظم کو درد کا احساس ہو لیکن وہ اس درد کے علاج کے لیے کچھ نہیں کر پائے۔ تین سال ہو چکے ہیں چوتھا سال جاری ہے لیکن آج تک کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس سے عام آدمی کی زندگی میں فرق پڑا ہو اس کی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی ہو نظر نہیں آتا لیکن اس کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر جھوٹ سننا پڑتا ہے۔ انہیں کرپشن کرپشن کرنے کا بہت شوق ہے لیکن جتنی اخلاقی کرپشن پاکستان تحریکِ انصاف نے پھیلائی ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا وعدہ توڑنا کرپشن نہیں، کیا جھوٹ بولنا کرپشن نہیں، کیا سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانا کرپشن نہیں، کیا کمزور طبقہ پر دھونس جمانا کرپشن نہیں۔ اسد عمر کی عینک بدلنے سے ان کا منظر بدل چکا ہے۔ جب تک وہ اپوزیشن میں نہیں آئیں گے نہ انہیں عوام کا درد محسوس ہو گا نہ انہیں مہنگائی نظر آئے گی، نہ انہیں غربت اور بیروزگاری نظر آئے گی۔
حکومت کا کرپشن کا بیانیہ بری طرح پٹ چکا ہے۔ جنہیں سب سے بڑا کرپٹ قرار دیا جاتا رہا انہیں پکڑنا تو دور کی بات ہے ان سے ایک پائی وصول نہیں کیا جا سکی۔ اگر کسی نے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے تو حکومت کیوں اسے کٹہرے میں نہیں لاتی تحریکِ انصاف اب اقتدار میں ہے۔ اسے اب بیانات جاری نہیں کرنے بلکہ اقدامات کرنے ہیں۔ بدقسمتی سے اس شعبے میں کارکردگی نام کی کوئی چیز نہیں ہر طرف لوگ جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں۔ یہ تو حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے بے جان اپوزیشن کا سامنا ہے وگرنہ ایسی دھمکیاں دینے والوں کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ اپوزیشن میں سب کو اپنے اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ موجودہ حالات میں اپوزیشن کوئی غیر معمولی قدم اٹھانا نہیں چاہتی یہی وجہ ہے کہ اسد عمر یا حکومت کے دیگر وزراء ایسی زبان استعمال کرتے ہیں۔ شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ ابھی چند دن پہلے حکومت نے تحریک لبیک سے بھی معاہدہ کیا ہے۔ تشدد کی پالیسی یا پرتشدد ماحول جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ اسد عمر کے اس بیان پر انہیں فوری طور پر مستعفیٰ ہونا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ اپنے اس زباں دراز وزیر سے وضاحت طلب کریں۔ پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔ حکومت لوگوں کو "کٹنے" کی دھمکیاں دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دے تاکہ عام آدمی کو سکون کا سانس لینے کا موقع مل سکے۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کیلئے دنیا کو پیغام دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے افغانستان کی صورتحال پر ٹرائیکا پلس کے نمائندوں نے ملاقات کی ہے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ موسم سرما سے قبل انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی سمیت ہر ممکن اقدام کیلئے افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان طے شدہ قواعد و ضوابط اور انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے مقاصد کے پیش نظر بھارت کی جانب سے گندم کی فراہمی سے متعلق نقل و حمل کیلئے افغان بھائیوں کی درخواست پر ہمدردانہ غور کرے گا۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ کے ساتھ ملاقات میں افغانستان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ "آرمی چیف نے انسانی بحران سے بچنے اور افغان عوام کی معاشی ترقی کیلئے مربوط کوششوں کیلئے افغانستان پر عالمی اتحاد کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ امریکی ایلچی نے افغانستان کی حالیہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے کردار، بارڈر مینجمنٹ کیلئے خصوصی کاوشوں اور علاقائی استحکام میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کیلئے عالمی کاوشیں ناگزیر ہیں"۔۔
درحقیقت افغانستان کے مسئلہ پر دنیا کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے نظر انداز کیا جاتا رہا تو افغانستان میں پیدا ہونے والا بحران پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور یہ کچھ غیر معمولی یا انہونی بات نہیں ہو گی۔ ماضی قریب میں دنیا یہ تجربہ کر چکی ہے اور اس کے تباہ کن اثرات سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہا۔ اب یہ فیصلہ عالمی برادری نے کرنا ہے کہ کیا ایک مرتبہ پھر پرامن دنیا کو بڑے بحران میں دھکیلنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...