میں جھنگ سے انٹرمیڈیٹ پاس کرکے بی اے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ لاہور کے ادبی حلقوں اور ادیبوں کی محفلوں میں بڑے شوق سے آنے جانے لگا۔ جن نوجوان لکھنے والوں سے ابتدا میں تعارف ہوا ان میں یونس جاوید سرفہرست تھے۔ چونکہ ان کا گھرانہ لاہور سے تعلق رکھتاتھا اور وہ لاہور کے کئی ادیبوں سے متعارف تھے اور افسانہ نویسی کا آغاز کرچکے تھے چنانچہ میں بھی ان کے توسط سے بعض شعراء اور ادباء سے متاثر ہوا۔ خصوصاً مرزا ادیب (مرحوم) کے پاس ’ادب لطیف‘ کے دفتر میں آنا جانا شروع کیا۔ میں شعر کہتا تھا اور یونس جاوید افسانہ لکھتے تھے لیکن میں ان کی اس بات سے بہت متاثر ہوا کہ وہ شعر کی موزونی سے بخوبی آگاہ تھے اور بعض نو آموز شاعروں کے مصرعے ایک نظر دیکھ کر ہی درست کردیتے تھے۔
وہ چند وجوہ کی بنا پر اپنی تعلیم بیچ میں چھوڑ چکے تھے لیکن ادھر پھر متوجہ ہوئے اور جلد ہی بی اے پاس کرلیا اور پھر ایم اے اردو میں داخل ہوگئے۔ میں چند سال پہلے اورینٹل کالج میں لیکچرار بن چکا تھا۔ میرے لیے یہ امر قدرے پریشان کن تھا کہ ایک اچھا دوست تقدیر اور اتفاقات کے باعث میری کلاس میں بیٹھا کرے گا لیکن اس کے طبیعت پر ضبط کی یہ شاندار مثال ہے کہ خاموشی سے میری کلاس میں بیٹھنے لگا۔ وہ بہت ذہین اور وسیع المطالعہ طالب علم تھا اور اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایم اے میں اول آئے گا مگر امتحانات قابلیت کا معیار نہیں ہوتے اسی لیے اس نے اچھی فسٹ ڈویژن تو حاصل کرلی مگر اول نہ آسکا۔ میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ وہ اول آنے والے سے کہیں زیادہ لائق تھا۔ پھر وہ مجلس ِترقی ِادب میں ملازم ہوگیا وہاں بہت سا تحقیقی کام بھی کیا اور مجلہ ’صحیفہ‘ کی ادارت بھی کی مگر جب احمد ندیم قاسمی صاحب مجلس کے ڈائریکٹر بنے تو انہوں نے یونس جاوید کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ انہیں متعدد مواقع پر بے جا پریشان کیا گیا حالانکہ ان سے پہلے امتیاز علی تاج اور حمید احمد خان کا سلوک ان کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں مجلس ِترقی ِادب کا ڈائریکٹر بنا دیا جاتا تو وہ ادارے کو بخوبی چلانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ وہ اس کے ہر طرح اہل تھے۔ ایم اے کے علاوہ پی ایچ ڈی بھی کرچکے تھے اور ان کی متعدد تخلیقی اور تحقیقی کتابیں بھی شائع ہوچکی تھیں مگر ادارے کی بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
وہ انتظامی امور سے الگ تھلگ رکھے گئے مگر یہ اس لحاظ سے اچھا ہی ہوا کہ انہیں لکھنے پڑھنے کا زیادہ موقع ملا۔ مجلس ِترقی ِادب میں رہ کر انہوں نے حلقۂ اربابِ ذوق پر جو تحقیقی کام کیا وہ اس اہم ادبی ادارے کے بارے میں حوالے کا ایسا کام ہے جس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ علاوہ ازیں، کلیاتِ ناسخ کی تدوین بھی ایک اہم کام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اچھے شاعر بھی ہیں۔ اس طرف انہوں نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ورنہ اس میدان میں بھی نمایاں رہتے۔ قدرت نے انہیں فکشن لکھنے کا مزاج عطا کیا ہے۔ وہ نوجوانی سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ یوں تو انہوں نے اچھے ناول بھی لکھے ہیں اور ان کی خاکہ نگاری بھی کسی دوسرے خاکہ نگار سے کم اہم نہیں مگر ان کی اولین اہمیت بطور افسانہ نگار ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے حقیقت پسند افسانہ نگاری کا سنہرادور وجود میں آچکا تھا۔ منٹو، کرشن چندر، بیدی، غلام عباس اور عصمت چغتائی اس دور کا نقطۂ عروج تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اس قسم کے افسانوں کو آگے بڑھانے میں کئی اور لوگوں نے حصہ لیا۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی وغیرہ حقیقت نگاروں کے دوسرے دور کے چند اہم افسانہ نگار تھے۔ یہ لوگ ابھی پڑھنے والوں میں مقبولیت حاصل کررہے تھے کہ چند اور فکشن نگار میدان میں آگئے۔ ان میں یونس جاوید کا نام ممتاز ہے۔
ان دنوں چند اور رجحانات بھی اردو افسانے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض افسانہ نگار شروع میں تو حقیقت نگار تھے پھر علامتی افسانے کی کشش نے انہیں حقیقت نگاری کو ترک کرکے علامتی انداز اپنانے پر مائل کیا۔ ان میں سینئر افسانہ نگار انتظار حسین تھے۔ پھر یونس جاوید کے کئی دوسرے ہم عصر بھی تھے مثلاً رشید امجد، خالدہ حسین اور منشا یاد وغیرہ۔ منشا یاد کچھ عرصہ علامتی افسانے کی طرف متوجہ ہوئے اور بعدازاں پھر حقیقت نگاری کی طرف آگئے۔ منشا یاد اور یونس جاوید اس رجحان کے افسانہ نگاروں میں اہم ہیں۔ انہوں نے معاشرے کی اونچ نیچ کا مشاہدہ اور اس کے مسائل کا ادراک جس انداز میں کیا اور دکھایا وہ لائقِ تحسین ہے۔ وہ معاشرے کی ناہمواریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مسائل کی عکاسی بڑی عمدگی سے کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک ضمنی خوبی ایسی ہے جو دوسروں میں شاذ ہے۔ ان کے ہاں مزاح کا ایک حلقہ ساٹچ بھی ہوتا ہے جو افسانوں کو دلچسپ تر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں پریم چند کے بعد دوسرا افسانہ نگار میرے مطالعے کی حد تک یونس جاوید ہے۔
بعدازاں، یونس جاوید نے خاص و عام میں مقبولیت اپنے ٹی وی ڈراموں کے ذریعے حاصل ہے جن میں ایسی دلکشی ہے کہ جب ان کا کوئی ڈراما یا سیریل آن ایئر آتی تھی تو گھروں کے علاوہ پبلک مقامات پر بھی لوگوں کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے۔ دلچسپی اور کشش نہ ہو تو کوئی شخص ٹی وی ڈراما نہیں دیکھے گا۔ ان ڈراموں میں بھی عموماً معاشرتی مسائل کی عکاسی کی گئی ہے مگر ٹی وی چونکہ سرکاری میڈیم رہا ہے اس لیے مسائل کا بیان بڑی احتیاط سے کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ’اندھیرا اجالا‘ دیکھ لیجیے۔ اس میں پولیس پر تنقید بچ بچا کر کی گئی ہے لیکن پھر بھی پس پردہ حقیقت دکھائی دے جاتی ہے۔ ’رگوں میں اندھیرا‘ جیسے ڈرامو ں نے معاشرے میں پھیلتی ہوئی تلخ حقیقتوں کا ادراک کیا ہے اور سوسائٹی کو بالواسطہ متنبہ بھی کیا ہے۔
یونس جاوید نے نیشنل کالج آف آرٹس سمیت بہت سے اہم اداروں کے لیے کام کیا ہے اور اسے بہت سے ایوارڈز بھی ملے ہیں۔ یہ سب کچھ خداداد صلاحیتوں کی بدولت بھی ہے اور اس میں فنی ریاض بھی شامل ہے تب جاکر اس نے اردو ادب کی دنیا میں ایک ایسا چراغ جلایا ہے جس کی روشنی نظروں کو خیرہ تو نہیں کرتی البتہ اس کی دھیمی لو سکون آور ضرور ہے۔ رضا علی وحشت کلکتوی نے اس سلسلے میں کیسا اچھا شعر کہا ہے:
فروغِ طبع خداداد اگرچہ تھا وحشت
ریاض کم نہ کیا ہم نے کسب ِفن کے لیے