سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو خط لکھا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر مشترکہ مفادات کی تمام اہم اصلاحات پر جماعتی سیاست سے بالا تر ہو کر جامع فیصلہ سازی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے۔وسیع تر قومی مفاد میں انتخابات کے ترمیمی بل 2021ء سمیت مختلف بلوں پر دوبارہ مشاورتی عمل شروع کرنے اور قانون سازی کے لئے تشکیل دی گئی متفقہ کمیٹی کے فورم کو بروئے کار لایا جائے۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈرکو اس ضمن میں اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے۔الیکشن ترمیمی بل 2021ء سمیت مختلف بل قومی اسمبلی سے منظور ہو چکے ہیں لیکن مقررہ مدت میں یہ سینیٹ سے منظور نہیں ہو رہے۔مذکورہ بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر بحث آنے والے ہیں ، ان بلوں پر غور کرنے اور ترمیم تجویز کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے سے قانون سازی سے متعلق کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں مشاورتی عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ اس ضمن میں آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
مفاد عامہ اور قومی اسمبلی کے حوالے سے تمام اہم امور پر مشاورت کی کوشش خوش آئند اقدام تو ہے لیکن ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ کام اسی انداز میں ہوتاجو آئین کا تقاضا ہے کہ اہم قومی مسائل پر مشاورت کے لئے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈ ر کی ون آن ون ملاقات ہو اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر وسیع تر قومی مفاد میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔اسے قومی المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ عمران حکومت کو قائم ہوئے ساڑھے تین سال گزر چکے مگر وزیر اعظم نے اس اہم قومی تقاضا کو پورا کرنے میں ایک بھی قدم نہیں بڑھایا ،انہوں نے مسلسل یہی موقف اختیار کر رکھا ہے کہ کرپٹ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہیں ملائوں گا ،سوال یہ ہے کہ اب جب یہ آئینی تقاضا سپیکر قومی اسمبلی سے خط لکھوا کر پُورا کیا جا رہا ہے تو کیا اب اپوزیشن لیڈر دودھ سے دھل چکے ہیں؟کرپشن کے مقدمات عدالتوں میں ہوتے ہوئے اب بھی اپوزیشن لیڈرکی حیثیت وہی ہے جو تین سال قبل تھی۔وزیر اعظم اس حوالے سے آئین کی پاس داری کرتے تو اب تک نہ صرف اہم قومی امور پر قانون سازی کا بہت سا کام مکمل ہو چکا ہوتا بلکہ سیاسی فضا خوش گوار ہونے سے حکومت کی مشکلات میں بھی کمی واقع ہوتی۔وزیر اعظم اور ان کے رفقائے کار اکثر مخالف سیاسی دھڑوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے،جس کا اعتراف وزیر اعظم خود کر چکے ہیں کہ حکومت مخالف سیاسی دھڑے باہم متفق ہوتے تو ان کی حکومت گرا سکتے تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ایسی اپوزیشن ملی ہے جس میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی اہلیت ہی نہیں ۔اس تناظر میں سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے برملا کہا گیا ہے کہ یہ پی ٹی آئی حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مد مقابل اپوزیشن اتنی سکت نہیں رکھتی کہ حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر سکے یا اسے اپنی آئینی ،قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہو ۔غیر جانب دار سیاسی حلقوں کے خیال میںحکومت نے ایسی کمزور اپوزیشن کو مسلسل دبائو میں رکھتے ہوئے ،آمرانہ طرز حکومت کو فروغ دے کر نہ صرف مسلمہ جمہوری اقدار کو پامال کیا ہے بلکہ اپنی سیاسی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔اقتدار میں آنے کے بعد حکومت نے معاشی مشکلات کا شکار عوام کی حالت میں بہتری لانے کے لئے کوئی مؤثر قدم اٹھایا، نہ عوام کو روز گار ملا اور نہ ہی مہنگائی پر قابو پایا جا سکا۔ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے،خارجہ پالیسی کے غیر موثر ہونے کا یہ عالم ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے پر مسلمان ممالک مودی سرکار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں،یہاں تک کہ سعودی عرب کے حالیہ موقف نے تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کا اپوزیشن سے مشاورت کے بجائے اسے دبائو میں رکھنا سراسر غیر جمہوری رویہ ہے،جس کی بحیثیت قوم ہمیں بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
انتخابات دھاندلی سے پاک ہونے چاہیں،اس ضرورت سے کسی کو انکار نہیں مگر اس کے لئے آئین میں ترمیم جمہوری راستہ اختیار کر کے ہی ممکن اور موثر ہوسکتی ہے، جس کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت وقت کا اہم تقاضا ہے۔یہ اقدام اسی انداز میں اٹھایا جانا چاہیے جس کا آئین تقاضا کرتا ہے۔ایسے وقت میں جبکہ حکومت بوجوہ دبائو کا شکار ہے، وزیراعظم کو اپنے رویہ میں نرمی لانی چاہیے کہ وزیراعظم اگر تنازعات کے حل کے لئے مودی سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر سکتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر سے ملاقات میں کیاامر مانع ہے۔وزیر اعظم کو اپنی مشکلات کم کرنے اوردرپیش بحرانوں سے نمٹنے کے لئے ضد اور انا کی روش چھوڑ کر اپوزیشن لیڈر سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ مفادعامہ کے امور طے پانے میں مزید تاخیر نہ ہونے پائے ۔قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے خط وکتابت کا سلسلہ محض رسمی کارروائی اور قیمتی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔بہتر یہی ہے کہ وطن عزیز کو مشکلات سے نجات دلانے کے لئے سیاسی افہام وتفہیم کا وہی راستہ اختیار کیا جائے جس کا آئین متقاضی ہے۔