مکرمی! ’’یادِرفتگاں‘‘ کے عنوان سے خواجہ عبدالحکیم انصاری کا تعارف عصرِ حاضر کی ایک علمی ،عملی اور انسان دوست شخصیت کی حیثیت سے ان صفحات میں ہو چکا ہے۔ آج ان کی بے مثال تصنیف یعنی ’’تعمیر ملت‘‘ کے بارے میں چند سطورلکھ رہا ہوں۔ اس کتاب کا مطالعہ نئی نسل کیلئے اس پرآشوب دور میں بے حد مددگار ثابت ہوسکتا ہے 1950ء کی دہائی میں لکھی گئی یہ کتاب آج بھی ہمارے لئے عمل کی کئی راہیں کھولتی ہے اور ان کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کر سکتے ہیں۔ نیز شریعت اور طریقت کی پیروی اور صراط مستقیم کو اختیار کرکے حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر نصیر احمد ناصر نے ’’تعمیر ملت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’خواجہ حکیم انصاری‘ طریقت کو ’’دید دوست‘‘ ’’تزکیہ نفس‘‘ اور ’’تعمیرملت‘‘ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس پر عمل کرنے والے لوگ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ ان کی محبت کا محور اللہ تعالیٰ‘ ہادی و مرشد پیغمبر اعظم و آخرؐ اپنے مسلمان بھائی بلکہ تمام بندگان خدا ہوتے ہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’خواجہ انصاری‘‘ کے فلسفۂ طریقت کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کا قلب حسین و منور ہو جائے تو اس سے محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور محبت ہی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا دوست اور انسانیت کا محسن بناتی ہے۔ اس لئے خواجہ صاحب نے اہل حسن و محبت بننے کے جو طریقے بتائے ہیں‘ وہ سہل‘ سادہ‘نیز شریعت و فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہیں۔‘‘مشہور دانشور‘ مصنف اور فلسفی جناب اشفاق احمد نے تعمیر ملت کے مصنف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’دور جدید کے صوفیوں میں خواجہ عبدالحکیم انصاری‘ کا مقام اس اعتبار سے بہت بلند ہے کہ انہوں نے تصوف کے ڈسپلن کو عملی صورت میں پیش کرکے ان آرزومندوں کیلئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی ہیں جو باطن کے سفر کے راہ رو بننے کے حواہشمند ہیں۔‘‘مختصر یہ کہ اس کتاب کے مطالعے سے ہم نہ صرف اپنے اخلاق کی انفرادی اصلاح کے قابل ہو سکتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال‘ رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے مثال قائم کرسکتے ہیں۔ (محمد اسلم چوہدری ، لاہور)