ہر سال نو نومبر کو شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یوم ولادت بھرپور عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے اس سال بھی گذشتہ کئی سالوں کی طرح امیر شہر سمیت اہم شخصیات تو مزار کے احاطے میں جب کہ غریب شہر کا ایک بہت بڑا ہجوم جو ہر سال مزار اقبال پر عقیدت کا اظہار و فاتحہ خوانی کرنے کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ اسے کئی کئی گھنٹے تک مزار کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی اس سال بھی ہزاروں عقیدت مندوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کو جو صبح سے ہی آیا ہوا تھا اسے مین گیٹ کے باہر ہی آرمی اور پولیس کے جوانوں نے روکے رکھا یہاں تک کہ پریس کوریج کرنے والے صحافیوں اور پریس فوٹو گرافرز کو بھی روکے رکھا اس موقع پر اقبال کے عقیدت مندوں کی آرمی کے جوانوں اور پولیس والوں کے ساتھ ہلکی پھلکی تلخ کلامی کے اکا دکا واقعات کے بعد ایک بجے غریب شہر کے اس ہجوم کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اس وقت تک بہت سارے اقبال کے عقیدت مند انتظار کرنے کے بعد بند گیٹ کے باہر ہی کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کر کے واپس لوٹ گئے راقم الحروف نے گزشتہ سال کے کالم میں بھی لکھا تھا کہ قیام پاکستان سے لیکر کر اب تک آپ کے یوم ولادت کے موقع پر پورے ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر چھٹی ہوا کرتی تھی۔ جسے پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ختم کردیا گیا مگر افسوس کہ اسکے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو اس نون لیگ کی حکومت نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہ دی بلکہ ان کے دور اقتدار میں جب سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز نے اس وقت منٹو پارک کو گریٹر اقبال کا نام دے کر پارک میں توسیع کی تو جو سڑک بادشاہی مسجد اور مزار اقبال کے آگے سے گزرتی تھی جہاں سے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ میں جانے والے لوگوں کا راستہ تھا بند ہوگیا اور گریٹر اقبال پارک کے چار گیٹ بنا دیے گئے۔ اب دور دراز سے ایک لمبا چکر کاٹ کر مزار کے احاطہ میں جانا پڑتا ہے اور وہاں پارک کے گیٹ پر سکورٹی کو کھڑا کیا گیا ہے۔ باوجود اس کے جو لوگ کسی نہ کسی طرح سے مزار اقبال کے احاطہ کے مین گیٹ تک پہنچتے ہیں تو وہاں پر بھی ایک سخت سیکورٹی کا انتظام موجود ہوتا ہے خاص کرکے نو نومبر کو آپ کے یوم ولادت کے موقع پر اسپیشل آرمی اور رینجرز کے جوانوں اور پولیس کی بھاری نفری کو وہاں پر تعینات کیا جاتا ہے وہاں پر اقبال کے عاشقوں کو تین سے چار مرتبہ یہ سیکورٹی والے چیک کرتے ہیں اور بلاوجہ گیٹ کے باہر کھڑا رکھتے ہیں۔ اس طرح کی تلاشی اور چیکنگ کرنے کے باوجود بھی انہیں نہ تو آنے والے لوگوں پر اور نہ ہی اپنے آپ پر یقین ہوتا ہے اس بے یقینی کی صورتحال کے پیش نظر ایک بار پھر ان عاشقوں کو مزار اقبال کے سامنے روک لیا جاتا ہے مزار کے اندر جانے کے لیے آخری مرحلہ پر اس بڑے ہجوم کو پھر وہاں روکا جاتا ہے یاد رہے کہ یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں کا تعلق واسطہ ہوتا ہے وہ لوگ اس مزار پر اندر چلے جاتے ہیں اور دوسرے بہت سارے لوگ باہر کھڑے ہو کر ہی فاتحہ خوانی کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔نون لیگ کی حکومت میں بھی ایسا ہی تھا اور اب تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بھی اس مزارِ اقبال پر آنے والے لوگوں سے یہی سلوک جاری و ساری ہے نہایت معذرت کے ساتھ کسی بھی حکومت کے دور اقتدار میں اس بد مزگی کو ختم کرنے کی زحمت نجانے کیوں نہیں کی جاتی ہم ہرسال نو نومبر کو بہت ہی پیارے قابل احترام دوست اور علامہ اقبال کے شیدائی عاشق جو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ہائی سکول جہانگیر آباد لاہور کے ہیڈ ماسٹر سجاد گل کے ہمراہ مرزا اقبال پر حاضری دیتے ہیں اس بار ہمارے ساتھ انجمن تاجران آل مارکیٹس مین بازار چاہ میراں لاہور کے نائب صدر محمد طارق یونس ملک بھی تھے بہرحال 9 نومبر کو منعقد ہونے والے سینٹ کے اجلاس میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش 9نومبر کو قومی تعطیل قرار دینے سے متعلق قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں اس سلسلے میں مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا نے قرارداد پیش کی. جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت ان کے یوم پیدائش 9نومبر کو قومی تعطیل کا دن قرار دے۔ ایوان نے اتفاق رائے سے قرارداد کی منظوری دے دی۔ چیئرمین سینٹ نے ہدایت کی کہ قرارداد کا متن وزیراعظم سیکرٹریٹ اور کابینہ سیکرٹریٹ کو بھجوایا جائے اس اقدام کا کریڈٹ روزنامہ نوائے وقت کو جاتا ہے۔کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرتِ انسان پر
فعلِ بد تو خود کرے لعنت کرے شیطان پر