خالقِ کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے عالمِ اسباب میں تقریباً ایک لاکھ اور چوبیس ہزار انبیاء و رُسل معبوث فرمائے کہ وہ اللہ کا پیغام مخلوقِ خدا تک پہنچا کر ان کی رہنمائی کریں اور صراطِ مستقیم دکھائیں تا کہ وہ دنیاوی فلاح کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی نجات پانے کے قابل بن جائیں۔ حضور سرورِ کائناتؐ کو تمام انبیاء و رُسل کا سردار اور خاتم النبین بنا کر معبوث فرمایا گیا۔ آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ میری بعثت کے بعد ہدایت اور رہنمائی کے لئے اور کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں۔ تبلیغِ دین کا کام اُمت ِ محمدیہ کے ذمہ ہونا اس لئے بھی ضروری تھا کہ حضورکریمؐ کے بعد نبیوں کے معبوث ہونے کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ چنانچہ پہلے یہ کام صحابہ کرامؓنے سر انجام دیا اور ان کے بعد اُمت کے حوالے ہو گیا۔ اسلام خود اپنی اصلاح کر کے صرف فردِ واحد کو ہی صالح اور متقی بنانے کے بجائے پورے معاشرے کو ایک خدائے واحد لاشریک کے سامنے سرنگوں اور اس کے احکامات پر عمل پیرا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ صرف اپنی اصلاح و تطہیر پر ہی اکتفا کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ نیکی پھیلانے اور برائی کو روکنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں ۔ جب بدی غالب آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے زمانے کے فتنہ پروروں اور دینِ اسلام کے خلاف نبرد آزما شیطانی قوتوں کو کچل ڈالا اور اسلامی تعلیمات کا پھر سے بول بالا ہوا۔ ایسی ہی ایک ہستی صوبہ جیلان (گیلان) کے ایک گائوں میں ابی صالح عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئی جن کا نام شیخ ابو محمد محی الدین عبدالقادر تھا۔ جنہوں نے اپنی زندگی قرآن و سُنت کی اشاعت اور اصلاح معاشرہ کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں تبلیغِ دین میں صرف کیں۔ چنانچہ آپ کی ہدایات، روحانی تعلیم و تربیت، فیوض و برکات اور وعظِ و نصیحت سے دنیا کا کونہ کونہ جگمگا اُٹھا
جس کے اثرات رہتی دنیا تک مشعلِ راہ ثابت ہوتے رہیں گے۔آپ کے والد اور والدہ دو فرشتہ نما انسان تھے ۔ والد کی ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ پانی میں بہتا ہوا سیب بغیر مالک کی اجازت کے کھا لینے سے بے قرارہو گئے۔ اور اس غلطی کے ازالہ کے لئے آخر کار باغ کے مالک تک رسائی حاصل کر لی اور یہی ان کی دامادی حاصل کرنے کی وجہ ٹھہری۔ آپ کی والد محترمہ ایک ایسی فرشتہ سیرت اور پاک دامن خاتون تھیں کہ جن کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا تھا۔ کہ وہ اندھی بھی ہیں اور بہری بھی۔ یعنی نہ اُنہوں نے کبھی کسی غیر محرم کو دیکھا اور نہ کسی غیر محرم کی نظر اُن پر پڑی اور نہ کبھی اُن کے کانوں نے کوئی بُری بات سنی اور نہ آنکھوں سے کبھی دیکھی۔ جب باپ زاہد اور متقی ہو اورماں پاکیزہ خصائل ، تقویٰ و پرہیز گاری کا مجسمہ ہو تو ان کے ہاں جنم لینے والی شخصیت کن صفات کے ساتھ دنیا میں تشریف لائی ہو گئی اس کا احاطہ کرنا عام انسانی ذہن کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ کا نام عبدالقادر رکھا گیا جو احیاء ملت و دین کے باعث محی الدین (یعنی دین کو زندہ کرنے والے) لقب سے سرفراز ہوئے۔ آپ کو حسنی اور حسینی سید کہتے ہیں کہ آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن ؓسے اور ماں کی طرف سے حضرت امام حسین ؓسے ملتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جن نیک بندوں سے کام لینا چاہتا ہے ان کی پرورش بھی پاکیزہ ماحول میں ہوتی ہے۔ آپ کی پرورش نہایت ہی پاکیزہ ماحول میں ہوئی۔ والد محترم کی وفات کے بعد پرورش و تعلیم تربیت کی ذمہ داری صالح ماں پر آن پڑی جسے انہوں نے نہایت احسن طریقہ سے نبھایا۔ آپ نے گھر پر ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ مزید تعلیم کے حصول کے لئے آپ گیلانی سے بغداد تشریف لے گئے جو ان دنوں علم و فنون کا مرکز اور گہوارہ تھا۔ ان دنوں راستے پرخطر تھے اور قافلوں کو ڈاکو لوٹ لیا کرتے تھے۔ بغداد روانگی کے وقت زادِ راہ کے لئے کچھ رقم دیتے وقت عابدہ اور زاہدہ ماں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا کبھی بھی جھوٹ نہ بولنا۔ جس قافلہ کے ساتھ آپ ہم سفر تھے اس کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا۔ آپ کم سن تھے ۔جب ڈاکوئوںنے پوچھا کہ آپ کے پاس بھی کچھ ہے تو آپ نے ہاں میں جواب دیااور اشرفیاں نکال کر ان کے حوالے کر دیں۔ ڈاکو اس قدر متاثر ہوئے کہ لوٹ مار کا راستہ ترک کر کے صراطِ مستقیم پر آ گئے۔ بغداد پہنچ کر عرفان شناس حضرت شیخ حماد بن مسلم سے سلوک کی منزلیں طے کیں۔ قاضی ابو سعید المبارک سے علوم متدولہ اور حضرت ابو ذکریا سے ادب کی تعلیم مکمل کی۔ مشاہد محدث سے علمِ حدیث اور فقہ اور اصول فقہ پڑھنے کے لئے دوسروں کے علاوہ اکابر فقہی ابو سعید المبارک سے بھی استفادہ کیا جو ان دنوں مدرسہ باب لازج کے مہتمم او ر بانی تھے۔ آپ کے اساتذہ حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ آپ نے متاثر ہو کر حنبلی مسلک اختیا رکر لیا۔ آپ کو حدیث پر اس قدر عبور حاصل ہو گیا تھا کہ بعض احادیث کے معنی ان کے استاد بھی اپنے
شاگرد سے پوچھا کرتے تھے۔ ان کے اساتذہ کہتے تھے " اے عبدالقادر ہم تمہیں الفاظِ حدیث کی سند دے رہے ہیں ورنہ حدیث کے معنی میں تو ہم تم سے استفادہ کرتے ہیں کیونکہ بعض احادیث کے معنی جو تم نے بتائے ہیں ان تک ہماری فہم رسائی نہیں تھی"۔ تحصیل علم و فنون سے فارغ ہوئے تو مدرسہ باب لازج میں مدرس مقرر ہو گئے۔ آپ کی شہرت کے پیشِ نظر طالب علموں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ مدرسہ میں گنجائش ہی نہ رہی۔ چنانچہ مدرسہ کی توسیع کی گئی او رنیا نام مدرسہ قادریہ رکھا گیاجو اس وقت وسیع و عریض درسگاہ مشہور ہوئی۔ آپ نے اس علمی مرکز سے وعظ و نصحیت و درس و تدریس اور دعوت رشد و ہدایت کا نہایت مئوثر سلسلہ شروع کیا اور دعوتِ حق کے لئے فرمایا" اے لوگو دعوتِ حق قبول کرو۔ بے شک میں داعی الا اللہ ہوں کہ تم کو اللہ کے دروازے اور اس کی اطاعت کی طرف بلاتا ہوںاپنے نفس کی طرف نہیں بلاتا "۔ آپ کی دعوت رشد و ہدایت کی بدولت کثیر تعداد میں یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔مسلمانوں نے اپنے عقائد درست کر لئے اور ڈاکوئوں، راہزنوں، بدکاروں اور معاشرہ کے دوسرے جرائم پیشہ افراد نے مائل ہو کر شریفانہ زندگی اختیار کر لی۔ سرتاجِ اولیا ، علمبردارِ شریعت، امامِ طریقت و معرفت غوث الاعظم محی الدین سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے 91 سال کی عمر میں 11 ربیع الثانی 61 ہجری کو اس جہاں فانی سے رخت سفر باندھا
اوراسی مدرسہ قادریہ میں مدفون ہوئے جہاںدرس و تدریس ، علم و فضل اور فیوض و برکات خلقِ خدا میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ کتاب اللہ اور سُنت محمدی آپ کے دینِ مذہب، فکر ِ نظر اور وعظِ ارشادکا محورتھا