یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چند ماہ پہلے پاکستان کے تقریبا تمام علاقوں میں طوفانی بارشوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا تھا جس نے ملک کے ایک چوتھائی حصے کو تباہی و بربادی سے ہمکنار کردیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں 1 ہزار 427 افراد جاں بحق، 12 ہزار 742 زخمی، 8 لاکھ 83 ہزار 268 مال مویشی ہلاک، 5 لاکھ 67 ہزار 688 گھر مکمل تباہ، جبکہ 11 لاکھ 83 ہزار 140 گھر جزوی تباہ ہوچکے ہیں۔ مجموعی طور پر 6 ہزار 579 کلومیٹر سڑکیں، 246 پل اور 173 کام کی جگہیں تباہ ہوئیں۔ جبکہ سیلاب کے نتیجے میں مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ سے زائد پاکستانی بے گھر ہوئے، جن میں سے اکثریت اب بھی خیموں میں مقیم ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں 30 لاکھ ایکڑ سے زائد (8300 مربع کلومیٹر) پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے زراعت کو تقریباً 800 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ملک کا کم و بیش ایک تہائی حصہ سیلابی پانی میں ڈوبنے سے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف کیمطابق پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے 30 لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کے مصائب و آلام کی دل دہلا دینے والی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ حکومت کسی کی بھی ہو ، حکمران کوئی بھی ہو ۔ہمارے قومی رویے مختلف نہیں ہوتے ۔ چند دن کی بھاگ دوڑ کے بعد متاثرین کو ایسے بھولتے ہیں کہ دوبارہ ادھر جانے کا نہ تو وقت ملتا ہے اور نہ ہی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ چند دن پہلے میں ایک ٹی وی رپورٹ دیکھ رہا تھا جس میں سیلاب متاثرین کے انٹرویو دکھائے جارہے ہیں ۔ گفتگو کرنے والوں میں بوڑھی عورتیں بھی شامل تھیں ، نوجوان اور عمررسیدہ لوگ بھی ۔ حتی کہ ٹی وی رپورٹر نے نیم عریاں لباس میں سردی سے کانپتے ہوئے بچوں سے بھی گفتگو کی تھی ۔ سب نے ایک ہی بات کہی تھی کہ حکومتی نمائندے ڈیڑھ دو ماہ پہلے سروے تو کر گئے ہیں لیکن مکان بنانے کیلئے مالی مدد اب تک نہیںملی ۔ سب کی زبانوں پر ایک ہی بات تھی ہم سڑکوں کی کنارے کھلے آسمان کے تلے رات اور دن گزار رہے ہیں ۔ ہمارے پاس نہ پینے کا صاف پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے صا ف ستھرا کھانا میسر ہے ۔ بھوک اور پیاس تو سب کو خون کے آنسو رولاتی ہے ۔ بڑے تو بڑے ، بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتا ہوا دیکھ کر ماں باپ کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ سمجھ نہیں آ تا ہم جائیں تو جائیں کہاں ۔ کون ہماری فریاد سنے گا ، کس کو ہماری پریشانیوں کا احساس ہوگا۔ صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے ابتداءمیں جو پھرتیاں دکھائی تھیں وہ بھی اب منظر سے غائب ہو چکے ہیں ۔ بلوچستان اور سندھ کے تقریباً سبھی علاقے طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے چند اضلاع بھی دریائے سندھ کی منہ زور لہروں کی نذر ہوئے ۔ پانچ مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک انسانی آبادیوں اور گھروں کو جانے والے راستے سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ایک بزرگ نے کہا ہمیں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ حکومت متاثرہ علاقوں میں واٹر فلٹر پلانٹ لگائے گی جو ایک دن میں دو لاکھ لیٹر پانی کو صاف کرکے پینے کے قابل بنائے گا لیکن یہ سب حکومتی دعوے ، دعووں تک ہی محدود رہے ۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ بالائی علاقوں میں برفباری اور بارشوںکے ساتھ ژالہ باری بھی ہورہی ہے جس کی وجہ سے سردی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایک جانب مسائل ہی مسائل تو دوسری جانب حکمرانوں اور امدادی اداروں نے سیلاب کے متاثرین کی جانب سے ایسا رخ موڑا ہے کہ دوبارہ ادھر آنے کی امید یں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں ۔ پہلے سیلابی پانی پینے کی وجہ سے پیٹ اور وبائی امراض میں مبتلا رہے ،اب رہی سہی کسر سردیاں بھی پوری کرلیں گی ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف فرمایا کرتے تھے کہ سیلاب متاثرین کے آخری شخص کو گھروں میں آباد کرنے تک وہ سکون سے نہیں بیٹھیں گے، تقریبا ایسے ہی الفاظ وزرائے اعلی کے بھی تھے ۔ بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح ہمارے حکمران اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بہت جلد بھول جاتے ہیں لیکن اب بھی سیلاب متاثرین اپنے گھروں کو ( جو تباہ بربادہو چکے ہیں) دوبار تعمیرکرکے وہاں آباد ہونے کے منتظر ہیں ۔