کسی بھی قوم کی ترقی میں اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں ملک و قوم کی بین الاقوامی سطح پر پہچان اساتذہ کی پیشہ وارانہ ذمہ داری اور کردار کی عکاس ہے کیونکہ نظام تعلیم کے تحت جتنے بھی شعبہ جات جاری ہیں یا متعارف کروائے گئے ہیں۔ وہ اساتذہ کے بغیر نامکمل ہیں۔ جہاں استاد نہیں ہے وہاں طالب علم کا کیا کام ہے۔ اور ایسا شعبہ اپنا متعلقہ کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اساتذہ کا کردار تعلیمی عمل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جوکہ انتہائی حساس عمل ہے۔ جہاں مستقبل اور قوم کے معمار تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ نکتہ اساتذہ کے لیے بڑا اہم ہے کہ اسے دل و دماغ سے سمجھا جائے اور اس عمل میں اپنا پیشہ وارانہ سنجیدہ کردار ادا کیا جائے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ سنجیدگی آج کے اساتذہ میں ناپید ہوتی جارہی ہے اور جس طرح میرے اور قارئین کے اساتذہ کے جذبات ، طلبا سے لگائو ، پیشہ وارانہ مہارت ، بے لوث تعلیمی عمل میں شمولیت، طلبا کو کامیاب کرنے کی خواہش اور خلوص نیت سے انھیں بے لوث وقت دینا تھا وہ آج کے اساتذہ میں نظر نہیں آتا۔ حال یہ ہے کہ آج کے اساتذہ بغیر کسی وجہ کے کسی طالب علم کو اپنے کھڑا ہونے نہیں دیتے کہ کہیں ان کے الفاظ اس طالب علم کی زندگی ہی نہ سنوار دیں۔
آج موجودہ دور میں استاد بہت کمرشل اور مکینیکل ہوگیا ہے۔ کمرشل ازم نے اس کی پروفیشنل ازم کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہر لحظہ مادیت پرستی کا بھوت اس کے سر پہ سوار رہتا ہے۔ جس نے بہت سے خوبصورت رشتوں کوتوڑ کے رکھ دیا ہے۔ ان رشتوں میں سب سے مقدس رشتہ استاد اور طالب علم کا ہے۔ یو ں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان میں کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ استاد اور شاگرد دونوں رسمی تعلیمی عمل میں داخل ہیں اور بغیر کسی فکرمندی ، تبدیلی اور نظریئے کے اس عمل سے نکل جاتے ہیں۔ اس عمل تعلیم کو تعمیری عمل سمجھے بغیر متحرک کیا جاتا ہے۔ اور تھوڑے سے وقت کے بعد اس کی حرکت قلب کو روک دیا جاتا ہے۔ بے روح و جان اجسام چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جو بڑے بھاری بھر کم انداز میں ایک دوسرے سے ملتے اور موثر الفاظ کی ترسیل کے بغیر ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔ بے چارہ طالب علم کیا کرے، کس کے پاس جائے، کہاں سے اپنا نظریہ حیات روز روشن کی طرح سمجھے اور وہ مقام جو تعلیم کا اصل مقصود ہے کہاں سے حاصل کرے؟ استاد کو اس طالب علم کو وقت دینے کے لیے ہی تیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسے سمجھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ وہ سگریٹ نوشی اور چائے نوشی میں تو وقت ضائع کرسکتا ہے مگر قوم کے معمار کی نوک پلک نہیں کرسکتا۔ کلاس میں استاد طلبا کو جنت دکھاتا ہے جو کہ کلاس روم سے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ اسی استاد میں قیامت کی نشانیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ گفتگو اتنی غیر مہذب کہ مہذب آدمی وہاں بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ سستے الفاظ کا استعمال بکثرت ہوگا۔ بے معنی جملے ادا ہوں گے۔ تعلیمی مسائل، تعلیمی تحقیق، نئے نظریات، پیشہ وارانہ مہارت اور تعلیمی اقدار زیر بحث لانے کے بجائے بے معنی اور بے وقعت گفتگو اوربحث کی جاتی ہے۔ آپ یوں کہہ لیجیے کہ ان کی گپ شپ کی محفلیں ملک و قوم کی ترقی پہ شب خون مارتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہماری نوجوان نسل قوم کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لیے کیسے تیار ہوسکتی ہے۔ ہماری قوم و ملک کی بین الاقوامی اور قومی سطح پر تنزلی اسی کا شاخسانہ ہے۔
استاد اپنے مضمون کے حوالے سے ایک نظریے کا نام ہے جسے اپنے طلباء میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔
پیشہ ور استاد سے مراد وہ استاد ہے جو طریقہ ہائے تدریس پہ گرفت رکھتا ہو، طلباء کو ان کی ذہانت کے مطابق سمجھ کے تعلیم دیتا ہو، خوبصورت گفتگو کو مالک ومختار ہو، علمی مہارتوں کا گہرا علم رکھتا ہے۔ اخلاق و اقدار کا عملی نمونہ اور پاسدار ہو، مظبوط کردار کا مالک ہو، جائزہ و پیمائش کا علم رکھتا ہو، جس کا ایک ایک لفظ علم کا منبہ ہو۔ جو مستقبل پہ نظر رکھنے والا ہو۔ جو دل سے اپنے طلباء کا احترام کرتا ہو، اچھا مشیر اور رہنما ہو، تعلیمی دنیا اور عصر حاضر میں ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک رکھتا ہو۔ وہ ایک اچھا فلسفی، ماہر نفسیات اور منتظم ہواور اپنے طلباء کو خصوصی وقت دینے کا قائل ہو۔ یہی پیشہ اسے وقت پہ ادارے میں آنا اور کلاس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی لیے پیشہ وارانہ معلم پابندی وقت کا مظہر ہوتا ہے۔ استاد کے چال چلن اور گفتگو کو طلباء دیکھتے ہیں اور اچھے استاد کے تمام انداز طلباء اختیار کرکے اظہار کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ایک استاد کے کردار کا عملی اظہار طلباء کے لیے مثالی نمونہ ہوتا ہے۔ وقت ازمنہ میں استاد کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا مگر آج یہ تضاد دیکھا جاتا ہے۔ استاد کلاس میں کچھ اور ہے ، کلاس سے باہر کچھ اور ہے اور گھر میں کچھ اور ہے۔ اس طرح طلباء تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ استاد کی کس بات کا یقین کریں اور کس کا نہ کریں۔ استاد کا ایک ہی چہرہ اور ایک ہی لسانی حیثیت ہے جو اسے معاشرے میں ایک خاص مقام اور وقار دیتے ہیں۔ ایک حقیقی استاد کے لیے ان میں مطابقت پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ استاد ایک فنکار تھوڑی ہوتا ہے کہ سٹیج پہ کسی اور لہجے ، کردار اور زبان کا استعمال کرے اور سٹیج سے باہر کسی اور کردار کا اظہار کرے۔
منافق کی نشانی کیا ہے کہ وہ ایک چہرے کے ساتھ غار کے ایک راستے سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے راستے سے دوسرے چہرے کے ساتھ نکل جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جتنا نقصان دین اسلام کو منافقین نے پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا ہے کیونکہ یہ منافق مسلمانوں کے درمیان بیٹھ کرکہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور کافروں کے پاس جا کے کہتے تھے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ ٹھٹھہ کررہے تھے یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی پریکٹسز عجیب و غریب ہوتی جارہی ہیں ہر ایک اپنے مفاد کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور جس کے پیچھے دوڑنے کی ضرورت ہے اس کا دور دور تک پتہ ہی نہیں ہے۔ ہر ادارے میں اساتذہ کے گروپس بنے ہوئے ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف غیر تعمیری باتوں میں مصروف رہتے ہیں حتی کہ کالجز میں دو بندوں کا بھی گروپ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک فرد کا بھی اپنی ذاتی حیثیت میں بھی گروپ ہے؛ وہ کس طرح؟ وہ اس طرح کہ اس فرد کی سوچ و افکار اور کردار میں ہم آہنگی ہے تو انہی دونوں فیچرز نے مل کے اس کی ذات کے ساتھ گروپ کی شکل دھار لی۔ اب یہ اکیلا فرد اپنی خاص سوچ اور نظریے کے ساتھ باقی تمام افراد کے خلاف یا حق میں باتیں کرتا ہے اور مثبت یا منفی سوچ پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں ایک فرد کا گروپ ، دو لوگوں کا، تین کا، چار افراد کا گروپ ایک دوسرے کے خلاف منافرت پھیلانے میں مصروف عمل دِکھائی دیتے ہیں اور عجیب سی غیر بصری تکلیف دہ صورت حال اداروں میں غیر محسوس انداز میں پائی جاتی ہے۔ جو کہ دبی راکھ میں آگ کا شاخسانہ ہے۔ یہ صورت حال مثبت انداز فکر کے ساتھ ٹکراتی رہتی ہے اور اچھے اقدام کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ مگر سب جانتے ہیںکہ سچائی کو ہمیشہ فتح حاصل ہے اور جھوٹ کو فنا ہے۔ مگر ماہر تعلیم اور پیشہ ور اساتذہ ان اندھیروں میں بھی چراغ روشن کرتے ہیں اور دل و دماغ اور کردار کی تاریکیوں کو دور کرتے ہیں۔ کیونکہ ہر بندہ رہنما نہیں ہوتا، یہ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جن کو یہ فریضہ دیا جاتا ہے اور اس میں اساتذہ سرفہرست ہیں۔ استاد تو روشنی کا مینار ہے تو یہ کس طرح روشنی کے مینار گرا سکتا ہے اس کا یہ خاصا ہی نہیں ہے مگر مینار گرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتنے عشرے بیت گئے کہ پاکستان قومی اور بین الاقوامی سطح پر مایہ ناز استاد ، سائنسدان، فلسفی، تاریخ دان اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین پیدا نہیں کرسکا۔ مگر پہلے عشروں میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔ بڑی بڑی شخصیات پیدا ہوئیں اور انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ تو آج کیا مسئلہ ہے کہ ہم موثر انسانی وسائل پیدا نہیں کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے قصور وار حکومت کی ناقص پالیسیاں اور تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی ہے۔ جس میں استاد کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ ایک طرف استاد اپنے پیشہ وارانہ امور بھول گیا دوسری طرف پیشہ ور اساتذہ پیدا کرنے والے ادارے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہاں موجود اساتذہ غیر پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں مبذول ہیں اور تیسری طرف حکومت کی تعلیم کے ضمن میں غیر سنجیدگی نے پورے نظام تعلیم کا بیڑا ڈبو دیا۔
اولاد والدین کا اثاثہ ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کا تحفظ ہر حوالے سے یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس کائنات میں جس ہستی پہ وہ سب سے زیادہ اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے یقین اور اعتماد کرتے ہیں وہ اساتذہ کرام ہیں ۔ لہٰذا اساتذہ ان بچوں کی علمی، اخلاقی، سماجی ، معاشرتی ، معاشی اور تعلیمی کامیابی کے ضامن ، محافظ اور ذمے دار ہوتے ہیں۔ اگر کسی بچے یا قوم کے فرد یا قوم میں بحیثیت مجموعی اخلاقی گراوٹ اور مستقبل کے حوالے سے تنزلی دکھائی دیتی ہے تو اس کے ذمے دار اساتذہ ہیں وجہ یہ ہے کہ یہ ہماری آبادی سے روزانہ کی بنیاد پر فیس ٹو فیس بات کرتے ہیں اور تعلیم و تربیت کے عمل میں رہتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں علمی و تربیتی حوالے سے پروان چڑھنے والے بچے اپنی منزل سے دور ہوجائیں ، یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا اساتذہ کو اس ضمن میں حساس اور ذمے دار ہونے کی ضرورت ہے ان کا فرض ہے کہ یہ اپنے طلباء کو بتائیں کہ تعلیم ہی کامیابی کا راستہ ہے لیکن منزل نہیں ہے۔ منزل تو علم ہے جس پہ اپنی انتھک محنت کے بعد ہی وہ پہنچ پائیں گے ۔ یہاں پہ مسئلہ راستے اور منزل کا بن چکا ہے کوئی منزل کو راستہ سمجھتا ہے اور راستے کو منزل …!