بچپن میں ا سکول میں ایک دعا پڑھائی جاتی اور ہم سب مل دہراتے
لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ہم بڑی آسانی سے دعا مانگتے رہے لیکن جب بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس کسوٹی پر صرف چند لوگ ہی اتر پائے جنہوں نے خود کو جلا کر دوسروں کو روشنی پہنچائی۔ ذرا اپنے آپ کو ٹٹولیں اور اردگرد نگاہ ڈالیں تو جناب عبدالستار ایدھی ،ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان جیسے چند روشنی کے میناروں کے بعد گنتی ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے بھی لوگ دیکھنے کو ملے جنہوں نے دوسروں کو شمع کی موم کی طرح پگھلایا اور اپنے آپ کو روشن کرتے رہے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر اینکر حضرات پروگرام ختم کرتے وقت اکثرایک جملہ بڑے فخر سے بولتے ہیں، ''اپنا بہت خیال رکھئیے گا'' یہ کیوں نہیں کہتے ''اپنا تو آپ سب بہت خیال رکھتے ہی ہیں، دوسروں کا بہت خیال رکھئیے گا''۔ اپنے ساتھ بس یا ٹرین میں سفر کرنے والوں کا، سڑک پر پیدل چلنے والوں کا، ہسپتال میں بیماروں کا، ہمسایوں کا، والدین کا، بڑوں کا، چھوٹوں کا، بہن بھائیوںکاخیال رکھیں۔
بچپن میں یہ نظم بھی پڑھی۔
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
میں سلام پیش کرتا ہوں اس چھوٹی سی نظم کے مصنف صوفی تبسم صاحب کو جو کتنی گہری بات چند لفظوں میں کہہ گئے۔ آج ہمارا ملک اور عوام جس ہیجانی کیفیت سے سے گزر رہے ہیں، خوف آتا ہے کہیں تیتر اور بٹیر کی طرح لڑتے لڑتے ہم بھی ایک دوسرے کے سر اور پیر نہ کٹوا بیٹھیں۔ کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور بعد میں ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ڈر ہے میری بات مزاق میں نہ اڑا دی جائے لیکن بچپن کی ان نظموں کو کالجوں، یونیورسٹیوں اور بڑے بڑے ایوانوں میں دوبارہ پڑھایا جانا چاہیئے۔ ایک ریفریشر کورس ہی سہی۔ جوں جوں ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالتے ہیں، ننھے منے بچوں کے لئے لکھی گئی نظموں کا عکس اور ان کے کردار بکثرت دیکھتے ہیں۔
چندا ماموں دور کے بڑے پکائیں بور کے
آپ کھائیں تھالی میں مْـنے ّ کو دیں پیالی میں
اہل ثروت ذاتی محفلوں اور دعوتوں کے مزے اڑاتے جبکہ باہر بیٹھے سکیورٹی گارڈ صرف ان کھانوں کی خوشبو ہی سونگھ پاتے۔ اگر کوئی بڑا سخی ہو تو بعد میں بچا ہوا کھانا اور وہ بھی کوئی ایک آدھ سستی والی ڈش باہر بھیج دے گا۔ مہنگے پکوان فریز کر لیتے ہیں کہ بعد میں کھائیں گے اور یوں ہم حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر کہتے ، ''ہم تو اپنے ملازمین کے ساتھ گھر والا سلوک کرتے ہیں''۔ سرکاری ضیافتوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی یہی رواج دیکھا گیا۔ کتنے لوگوں میں ہمت ہے کہ جب ہوٹل جائیں توملا ز م کو بھی ساتھ بٹھائیں یا کم از کم ایک الگ ٹیبل پر بٹھا کر اس کے لیے بھی وہی کھانا آرڈر کریں جو خود کھا رہے ہوں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے ایک عزیز ماشااللہ یہ عمل کرتے ہیں۔ یہ صاحبِ دل اکثر ہمیں ریسٹورنٹ میں کھانا کھلانے لے جاتے اورملا ز م کو کہتے، ''گاڑی کھڑی کر کے اندر آجاؤ'' اور یوں وہ بھی ہم سب کے ساتھ بیٹھ کر وہی مرغ مسلم کھاتا جو ہم کھاتے۔ سوچئے ـ ـاُس غریب ملا ز م کے دل سے کیسی دعائیں نکلتی ہوں گی۔ دوسری طرف وہ ملازمین جو باہر بیٹھے سوچتے رہتے ہیں کہ آج صاحب کی فیملی جو کھانا کھا رہی ہے اس کا بل ہماری پورے مہینے کی تنخواہ کے برابر یا شاید زائد ہی ہوگا۔ ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔
''پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار''، والی نظم تو ہم سب لہک لہک کر سناتے تھے۔ کس قدر خوبصورت پیغام تھا۔ اگر ہم میں ایکا ہو جائے، ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور قربانی کا جذبہ ہو تب ہی ہم اپنی منزل پر پہنچ سکیں گے، ورنہ ایک ایک کر کے سب بکھر جائیں گے۔ حج یا عمرہ پر جائیے جہاں دنیا کی تمام اقوام آئی ہوتی ہیں۔ ہر ملک کے لوگ خاص طور پر ایرانی، انڈونیشین، ترکی اور افریقہ سے آئے ہوئے زائرین ہمیشہ ایک گروپ کی صورت میں گھومتے، بیٹھے یا طواف کرتے نظر آئیں گے۔ مجال ہے کہ کوئی شُرْطَہ ان کو کچھ کہہ سکے مگر افسوس پاکستان سے گئے ہوئے تمام افراد اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے رہیں گے نتیجہ : اکثرپولیس والے سے ڈانٹ کھاتے نظر آ ئیں گے ۔
ایک اور منظر جو ہمارے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے وہ ہے والدین کی وفات کے بعد بہن بھائیوں کا جائیداد پر لڑنا جھگڑنا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے گھرانوں میں والدین اور بہن بھائیوں میں خوب ملنا جلنا اور پیارہے۔ لیکن والدین کی وفات کے بعد وہ گھر جس میں ہم سب نے کھیل کود کر بچپن گزارا ہوتا ہے، اسی پر لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر جب جائیداد کا غیر منصفانہ بٹوارہ ہو تو کسی کو کچھ نہیں ملتا، اور اچھا بھلا گھرانہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔ ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر جو سب مل کر بناتے ہیں کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ ہم سب میں ایک بچہ چھپا بیٹھا ہے۔ اس کو کسی دن نکالیئے، چھٹی والی روز ہی سہی۔ اس سے باتیں کریں۔ یہ تجربہ شاید آپ کو بڑی بڑی motivational talks یا اہل دانش کی موٹی موٹی باتوں سے زیادہ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہو۔