پاکستان میں لیتھیم کے ذخائر کی بہتر تحقیق کے لیے چین پاکستان جوائنٹ ریسرچ سنٹر برائے ارتھ سائنسز اور تیان چھی لیتھیم کمپنی کے درمیان تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق، فریقین پاکستان میں لیتھیم وسائل کی تحقیق اور استعمال پر تعاون کریں گے۔ علاوہ ازیں، لیتھیم وسائل پر مشترکہ تحقیق کو فروغ دینے کے لیے عملے کی تربیت اور تعلیمی تبادلے کے لیے بھی کوششیں کی جائیں گی۔ پاکستان کو اپنی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے لیتھیم کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔لیتھیم ایک اہم کیمیائی جز وہے جو موبائل فونز، لیپ ٹاپ کمپیوٹرز اور برقی گاڑیوں کی بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے اوراپنے وسیع صنعتی استعمال کی وجہ سے تجارت اور کاروبار کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ متعدد صنعتوں لوہے، سرامکس، گرمی سے بچنے والے شیشے، توانائی کے نظام کی تبدیلی، چکنا کرنے والے مادے، میگنیشیم اور ایلومینیم کے مرکب ، فلوکس ایڈیٹیو، الیکٹروڈ اور الیکٹرولائٹ مواد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق، پاکستان میں خیبر پختونخواکے ضلع چترال، گلگت بلتستان، بلوچستان میں چاغی کی بنجر جھیلوں، پنجاب اور سندھ میں چولستان تھر کے صحرائوں اور جنوبی پنجاب کے علاقے میں بھی لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ لیتھیم ذخائر پر حکومت پاکستان نے تاحال کوئی پالیسی وضع نہیں کی حالانکہ لتھیم کی پراسیسنگ، ریفائننگ اور ویلیو ایڈیشن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 2021ء میں لیتھیم مارکیٹ کا حجم 3.95 ارب ڈالر تھاجو 2030ء تک 25 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ 2021ء میں اس کی مانگ 5 لاکھ ٹن سے 2030ء تک 40 لاکھ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔ 2022ء میں لیتھیم کی قیمت بلند ترین سطح 77 ہزار ڈالرفی ٹن تک پہنچ گئی۔ اس حوالے سے چین اور پاکستان کے مابین ہونے والا معاہدہ انتہائی خوش آئند ہے۔ پاکستان میں لیتھیم کے وسیع ذخائر کو دیکھتے ہوئے چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر لیتھیم وسائل کی تحقیق اور استعمال میں تعاون کے لیے معاہدہ کیا ہے تو پاکستان کو اس معاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیتھیم کی کان کنی کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بھی بہت ضروری ہے۔اس سلسلے میںپاکستان چین سے تکنیکی مدد حاصل کر سکتا ہے تاکہ کان کنی کے شعبے کو فروغ دے کر اسے صحیح سمت میں چلایا جاسکے۔