مصر کے پرفضا مقام شرم الشیخ میں ماحولیات پر سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔اسکے ایک اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف نے ناروے کے ہم منصب کیساتھ صدارت کے فرائض انجام دیئے۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی شریک ہوئے ۔ جن کے ہمراہ وزیراعظم شہبازشریف نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ کم و بیش اس اجلاس میں تین مرتبہ وزیراعظم شہبازشریف نے دنیا پر واضح کیا کہ عالمی ماحول کی خرابی میں پاکستان کا ایک فیصد بھی کردار نہیں ہے ۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک حقیقت میں ماحول کو خراب کررہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ بے موسمی موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں، موسم بہار عملی طورپر ختم ہوچکا ہے ۔
مارچ کے مہینے میں ہی سورج کی تپش اپنی انتہا پر ہوتی ہے۔ پاکستان میں مئی جون میں بے موسمی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا، پھر مون سون نے کسر نکالی، اگست میں بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب کے سیلِ رواں نے تباہی مچادی اور وطن عزیز کا ایک تہائی رقبہ اس تباہی کی زد میں آگیا،تین کروڑ افراد بے گھر وبے خانماں ہوکر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ ان کو نہ کوئی پناہ میسر ہے ، نہ کوئی کھانے پینے کے وسائل ہیں ، متعدی بیماریاں ان کی جانیں نگل رہی ہیں ۔ آٹھ ہزار کلومیٹرطویل شاہراہوں کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ تین کلومیٹر لمبا ریلوے ٹریک سیلابی پانی اپنی تند و تیز لہروں میں بہاکر لے گیا ہے ۔ پاکستانی معیشت پہلے ہی کرونا کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار تھی ، اوپر سے سیلاب کی تباہی نے مرے کو مارے،شاہ مدار کا کردار ادا کیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے ترقی یافتہ اقوام عالم سے اپیل کی کہ وہ آگے بڑھیں اور مسائل میں گھرے پاکستان کی مدد کیلئے اپنا انسانی کردار ادا کریں جو کہ ان کا اخلاقی فرض بھی بنتا ہے ، کیونکہ ماحولیاتی خرابی کے اصل ذمہ دار وہی خود ہیں۔ اس عالمی موسمیاتی کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی ، جو ولی عہد نے قبول کرلی۔
کانفرنس کے دوران سب سے زیادہ قابلِ ذکر جو سرگرمی ہوئی ، وہ سیکرٹری جنرل یواین او کے ساتھ پریس کانفرنس ہے ۔ اس پریس کانفرنس میں سیکرٹری جنرل یو این نے کہا کہ انہوں نے سیلاب کے بعد پاکستان کا دورہ کیا، سیلاب سے پاکستان میں فصلوں، لوگوں کے روزگار اور نظام زندگی کو شدید نقصان پہنچا اور لوگوں کا سب کچھ تباہ ہو گیا، میں نے لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے دیکھا، پاکستان کے عوام کے حوصلے، ہمت اور فراخدلی لائق خراج تحسین ہے، پاکستان کے عوام کی فراخدلی کا مجھے پہلے ہی علم ہے، پاکستانی عوام کی طرف سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے بہت نقصان ہوا ہے۔
پاکستان عالمی برادری کی بھرپور مدد کا مستحق ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے ممالک میں شامل ہے، مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو مدد کی ضرورت ہے، عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس صورتحال میں بحالی اور تعمیرنو کے عمل کیلئے بڑے پیمانے پر بھرپور امداد کرے، اس حوالہ سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، تباہی اور نقصان کے ازالہ کے حوالہ سے کوپ۔27 کو واضح روڈ میپ بنانا چاہئے، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو چاہئے کہ وہ پاکستان کو قرضوں میں چھوٹ دیں، پاکستان سمیت قدرتی آفات سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے متاثرہ ممالک کو رعایتی فنانسنگ ہونی چاہئے، امید ہے کہ جی ٹونٹی ممالک اس حوالہ سے اقدامات کرینگے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور جی ٹونٹی ممالک پاکستان سمیت متوسط آمدنی والے ممالک کیلئے قرضوں میں ریلیف کا طریقہ کار وضع کرینگے۔انہوں نے یقین دلایا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور تعمیر نو میں پاکستان کا ہاتھ بٹانے کیلئے ایک انٹرنیشنل ڈونر کانفرنس کا انعقاد کیا جائیگا۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے پاکستان پویلین آمد پر سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا مشکور ہوں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان میں سیلاب سے ہونیوالی بدترین تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی، آپ کے دورے اور ہمدردی کے جذبات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ، یہ ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ عالمی برادری کے طور پر ہم ایک نئے گرین ڈیل کی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں سے واپس جانا ناممکن ہوگا۔
محمد شہبازشریف نے بجاطور پرعالمی برادری کو خبردار کیاکہ موسمیاتی بحران اور عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان کے متاثرہ ملک ہونے کے ناتے ہمارا مقصد ہے کہ کلائمیٹ فنانس کے اہداف حاصل کئے جائیں، ہم موسمیاتی ایجنڈے کے حوالے سے نقصان کے ازالے کے خواہاں ہیں اور پرامید ہیں کہ تمام ممالک کوپ 27 کے اجلاسوں میں اسی جذبے کے ساتھ شریک ہونگے کہ ہم سب کیلئے موسمیاتی انصاف کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال کو مکمل تباہی کی طرف نہیں لے جانا چاہئے اور ہمیں ان حالات میں ایک عزم کے طور پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے کیونکہ جو کچھ پاکستان میں ہوا ہے، وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔یہ ہے وہ گونج دار آواز جو وزیراعظم پاکستان نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بلند کی اور پاکستان کے مسائل و نقطہ نظر کو واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جن ممالک نے پاکستان کے سیلاب زدگان کیلئے فراخدلانہ تعاون کیا ، وزیراعظم نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔