حماس نے غزہ میں وہی کچھ کیا ہے، جو 1999ءمیں پاک فوج نے کارگل سیکٹر میں کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پاک فوج کے کارگل آپریشن پر اندرون ملک سے انگلیاں اٹھائی گئیں اور ایک ایسا تنازع اٹھ کھڑا ہوا کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لائ لگادیا گیا۔ پاک فوج کےخلاف عالمی میڈیا میں روگ آرمی کے عنوان سے اشتہارات چھپوائے گئے۔ حماس خوش قسمت ہے کہ اسے کسی مسلمان ملک نے یہ طعنہ نہیں دیا کہ اس نے بیٹھے بٹھائے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ بارہ ہزار فلسطینیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگادیئے۔ان شہداءمیں چار ہزار معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں ہسپتالوں کے مریض بھی شامل ہیں۔ جو مختلف امراض سے جان بچانے کیلئے وہاں داخل تھے ، لیکن اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے وہ جان کی بازی ہار گئے۔ فلسطینی شہداءمیں وہ بھی شامل ہیں جو مختلف مہاجر کیمپوں میں پناہ لینے کے لئے پہنچے۔ حماس کو ہر کسی نے داد دی کہ اس نے ایک انتہائی برق رفتار اچانک حملہ کرکے اسرائیل کے دفاعی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ حماس نے چشم زدن میں پانچ ہزار میزائل اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پر گرائے۔ حماس نے زمین سے حملہ کیا، فضا سے حملہ کیا، سمندر کی طرف سے حملہ کیا۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے حملہ کیا۔ حماس کے اس اچانک حملے نے اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے ”موساد“ کو بھونچکا کرکے رکھ دیا۔
اسرائیلی موساد کے ساتھ ساتھ نیٹو اور امریکی افواج کے انٹیلی جنس ادارے بھی حماس کے آپریشن طوفان الاقصیٰ سے پیشگی طورپر باخبر نہ ہوسکے۔ ایک لحاظ سے یہ اسرائیل کا نائن الیون تھا۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد دنیا میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کرکے رکھ دیا۔ اب اسرائیل نے بھی اس کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے غزہ پر کارپٹ بمباری شروع کردی۔ اس نے رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا۔ دفاتر اور کاروباری مراکز کو نشانہ بنایا۔ خون آشامی کی ہوس میں اس نے غزہ پر ایٹمی حملے کی بھی دھمکی دے دی۔ یہ وحشت و بربریت اور پاگل پن کی انتہا تھی۔
حماس نے اسرائیل کے خلاف اچانک آپریشن کیوں کیا ؟۔ یہ سوال اس سے کسی نے نہیں پوچھا۔ نہ ابھی تک حماس کے کسی ذمہ دار مجاہدین نے اس آپریشن کے مقاصد کی کوئی وضاحت کی ہے۔ لیکن حماس نے کئی ایک مقاصد کامیابی سے حاصل کرلئے ہیں۔ اسرائیل پر حماس کے اس حملے نے ان اسلامی ممالک کے دارالحکومتوں میں صفِ ماتم بچھادی جو سرخ قالین پر چلتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی اسی صف میں کھڑا تھا۔ اس کے نگران وزیر خارجہ نے پاکستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات ٹھیس پہنچاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں سعودی عرب کے فیصلے کی پیروی کرے گا۔ اس وزیرخارجہ کی ساری عمر پاکستان کے فارن آفس میں گذری ہے۔ انہیں بڑا منجھا ہوا ڈپلومیٹ قراردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ڈپلومیٹ اپنے پورے کیرئیر کے دوران پاکستانی مسلمانوں کے جذبات کا ادراک نہ کرسکا۔
حماس کی دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے بیش بہا قربانیوں کی ایک تاریخ تو رقم کردی ہے، لیکن اسرائیل کی وحشت و بربریت کا پردہ بھی چاک کردیا۔ حماس کے اس آپریشن کے بعد اسرائیل کا وہ چہرہ دنیا بھر کے سامنے آیا جس کو انسانی اخلاقیات کا کوئی احساس نہ ہو۔ جسے تہذیب کے دائرے سے کوئی لگاﺅ نہ ہو۔ اور جسے بنیادی انسانی حقوق کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ اسرائیل نے اپنے جنگی جنون سے ثابت کردیا کہ اس کا انسانوں کی دنیا سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے بلکہ وہ جنگلی جانوروں کی طرح دوسروں کا خون پینے کا عادی ہو۔ عالمی سطح پر لاکھوں کروڑوں لوگوں نے گلی بازاروں،سڑکوں چوراہوں پر اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ اسرائیل کی بدمعاشی کی مذمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
حماس نے پوری اسلامی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جن چند ایک مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے ، وہ بھی اپنا منہ چھپانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مسلم دنیا نے اسرائیلی جبر وستم کے خلاف اسلامی کانفرنس کا غیر معمولی اجلاس منعقد کیا۔ یہ اجلاس سعودی عرب کی میزبانی میں ریاض کے شہر میں منعقد کیا گیا۔ اور اس اجلاس میں مسلمان ممالک کے سربراہان نے ذاتی طور پر شریک ہوکر اسرائیل کی بھرپو ر مذمت کی ،اور مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے۔ ان کی وہ ریاست بحال کی جائے جو 1967ءکی جنگ سے پہلے موجود تھی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسلامی کانفرنس کے اجلاس سے اسرائیل کی صحت پر کوئی اثر پڑے۔لیکن اسرائیل پر واضح ہوچکا ہے کہ اسلامی دنیا میں تو اس کی پذیرائی کے خواب چکناچور ہوچکے ، اب تو یورپی ،امریکی ،افریقی اور ایشیائی خطے میں اس کا امیج انتہائی خراب ہوچکا ہے۔ اب ساری دنیا کے لوگ اسرائیل کو فرینکسٹائن کے نام سے یاد رکھیں گے جسے انسانی خون پینے کی لت لگ چکی ہے۔
فلسطین کو ڈیڑھ سو برس سے انصاف نہیں مل سکا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس کا کام صرف قراردادوں کی جگالی کرنا رہ گیا ہے۔ ایسی قراردادیں جن پر وہ عمل نہیں کرواسکا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر بھی اقوام متحدہ کی منافقانہ پالیسیوں کا شکار ہے۔ سلامتی کونسل کی کئی ایک قراردادیں واضح ہیں کہ کشمیر کا فیصلہ ایک غیرجانبدارانہ ، آزادانہ ، منصفانہ استصوابِ رائے کے ذریعے کیا جائے گا۔ ان قراردادوں پر بھی پون صدی سے عمل نہیں کیا جاسکا۔ کشمیر اور فلسطین کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ یہ مسلمان علاقے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کی آزادی کےلئے کئی کوششیں کیں ، فلسطین کی آزادی کےلئے عرب ممالک نے اسرائیل سے متعدد جنگیں لڑیں۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ حماس نے تو سرپہ کفن باندھ لیا ہے اور وہ بڑی سے بڑی قربانیاں دینے کےلئے تیار ہے۔ غزہ کے ایک ایک انچ میں مسلمانوں کا خون رچ بس گیا ہے۔ یہ خون پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اگر فلسطینی عوام کی جانوں سے کھیلنے کا یہ خون آشام سلسلہ ختم نہ ہوا تو صرف اسرائیل ہی نہیں، پورا خطہ امن کےلئے ترستا رہے گا۔
٭٭٭