اسرائیل کے مظالم جاری ہیں۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ہسپتالوں کو غیر فعال بنا دیا گیا ہے، بچے تڑپ رہے ہیں، زندگیاں ختم ہو رہی ہیں، بزرگوں کے آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے، باہمت خواتین کا حوصلہ پہاڑوں جیسا ہے، کیسے وہ معصوم بچوں کو کفن پہنے دیکھتی ہیں، کیسے جوانوں کے جنازوں کو برداشت کرتی ہیں، کیسے بزرگوں کی تکلیف کو محسوس کرتی ہیں، کیسے ظالم اور انسانیت کے دشمن اسرائیلی فوجیوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ وہ مہذب دنیا جنہیں کسی کے خاتون کے سکارف لینے پر آزادی کو خطرات کا احساس ہوتا ہے یہاں ہزاروں خواتین شہید ہو چکی ہیں لیکن کسی کو فلسطین میں شہید ہونے والی خواتین کا کوئی احساس نہیں ہے، وہ جو انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے نعرے لگاتے لگاتے تھکتے نہیں ان کو خبر ہو کہ فلسطین میں ناصرف بنیادی انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں بلکہ خواتین کو بھی ناصرف ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں تاریخی مظالم کا بھی سامنا ہے۔ خون مسلماں ناحق بہہ رہا ہے اور یہ خون کے دھبے ان مسلم دشمنوں کے چہروں پر ہمیشہ نظر آئیں گے۔ مجھے پہلے بھی کوئی شک نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام دشمنوں نے نشانہ بنایا ہے۔ وہ فلسطین ہو، کشمیر ہو، ایران ہو یا عراق ہو یا افغانستان ہو یا کوئی بھی اور جگہ ہو عالمی طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کے خون بہا کی حمایت میں رہی ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ امت مسلمہ ایسے ہر مسئلے میں ہمیشہ مصلحتوں کا شکار رہی ہے۔ امت مسلمہ کی قیادت تو نہتے مسلمانوں کے بہتے ہوئے خون پر مذمت بھی سہمے سہمے کرتی ہے۔ کیا کسی بھی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس بے دردی کے ساتھ نسل کشی ہوئی جس سلوک مسلمان بچوں بزرگوں جوانوں اور خواتین کے ساتھ روا رکھا گیا ہے یقینا نہیں۔
امریکا کے صدر جو بائیڈن اسرائیل کے صدر سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے اور انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا یعنی قاتل کو شاباش اور مقتول کو دھمکی۔ کیا دنیا میں ایسے امن قائم ہوتا ہے۔ ایک طرف امریکا اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو دوسری طرف
امریکا اسرائیل کو متنبہ کر رہا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں میں آگ اور خون کا کھیل نہیں دیکھنا چاہتے۔
امریکا نے اسرائیلی افواج پر واضح کیا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں کے اندر آتش گیر ہتھیاروں سے لڑائی سے گریز کیا جائے۔ یعنی ہسپتالوں سے باہر خون بہاتے رہو۔ یہ عجب دلیل ہے۔ یہی وہ دوہرا معیار ہے جس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کے معاملے میں عالمی طاقتوں کا کردار مشکوک ہوا ہے۔
امریکا کے مطابق اسرائیل کو واضح پیغام پہنچایا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں میں معصوم شہریوں اور علاج کیلئے موجود مریضوں کو گولیوں کا شکار بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔امریکا کو نہتے اور مظلوم فلسطینیوں سے زیادہ اپنے شہریوں کی فکر ہے۔ کیونکہ دنیا میں امن کے سب سے بڑے ذمہ دار امریکا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہر حال میں امریکی شہریوں کے انخلا کو یقینی بنایا جائے چونکہ
رفاح کراسنگ کبھی کھلتی ہے اور کبھی بند ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکیوں کو مسائل کا سامنا رہتا ہے لیکن حالات جو بھی ہوں امریکیوں کے بحفاظت انخلا کو یقینی بنایا جائے۔
اسرائیل کے انتہا پسند وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر کہتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی حمایت کرنے والوں کو ختم کر دینا چاہیے۔امریکا اور اسرائیل میں دہشتگرد قرار دی گئی تنظیم کا حصہ رہنے والے اسرائیلی وزیر نے حال ہی میں غیر قانونی یہودی بستیوں میں 25000 ہتھیاروں کے علاوہ گولہ بارود اور دیگر جنگی سامان تقسیم کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی 7 اکتوبر کے واقعے کے بعد فلسطینی شہریوں کو گرفتار کر کے ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ اتمار بن گویر نسل پرست یہودی تنظیم ’کہانے تحریک‘ کے سابق رکن تھے جس پر اسرائیل نے 1998 میں دہشتگردانہ کارروائیوں کے باعث پابندی عائد کر دی تھی۔ ایک ایسا سزا یافتہ متعصب اور مسلمانوں کا جانی دشمن جب دہشت گردوں جیسی سوچ رکھتا ہو اس سے بہتری کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ کیا کسی ایسے ملک میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہو وہاں ایسا کوئی بھی شخص قومی سلامتی کا وزیر ہو تو وہاں حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کیا امریکا کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ میدان محفوظ ہیں نہ ہسپتال، نہ مساجد محفوظ ہیں نہ رہائشی علاقے۔ یہ کیسے عالمی قوانین ہیں، یہ کیسے دوہرے معیار ہیں۔ دیکھیں غیر مسلموں سے کیا شکوہ ہے اصل شکوہ تو اپنے لوگوں سے ہیں دنیا بھر کے مسلمان اکٹھے ہو کر بھی نہ تو افغانستان کا مسئلہ حل کر سکے، نہ ایران کی مدد کر سکتے ہیں، نہ عراق کہ مدد کر سکتے ہیں، نہ پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ فلسطین کے مظلوموں کی مدد کر سکتے ہیں۔ کیا ایسے مسائل صرف مذمتی بیانات سے حل ہوتے ہیں۔ کاش امت مسلمہ مالی مفادات سے نکل کر اپنے مظلوم بہنوں، بھائیوں، بزرگوں ، جوانوں اور سب سے بڑھ کر بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ کاش ایسا ہو لیکن مستقبل قریب میں ایسا ممکن نہیں۔ دیکھیں وہ کون خوش قسمت ہو گا جو بکھرے اور ٹکڑوں میں بٹے مسلمانوں کو متحد کرے گا اور ان مسلمانوں کی قیادت کرے گا۔
آخر میں واحد اعجاز میر کا کلام
کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
میرے ہاتھوں میں اگر چاند ، ستارے ہوتے
ہم نے اک دوجے کو خود ہار دیا دکھ ہے یہی
کاش ہم دنیا سے لڑتے ہوئے ہارے ہوتے
یہ جو آنسو ہیں ، مری پلکوں پہ پانی جیسے
اس کی آنکھوں سے ابھرتے تو ستارے ہوتے
یار کیا جنگ تھی جو ہار کے تم کہتے ہو
جیتں جاتے تو خسارے ہی خسارے ہوتے
اتنی حیرت تمہیں مجھ پر نہیں ہونی تھی اگر
تم نے کچھ روز مری طرح گزارے ہوتے
یہ جو ہم لوگ ہیں احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے
تم کو انکار کی خو مار گئی ہے واحد
ہر بھنور سے نہ الجھتے تو کنارے ہوتے