او آئی سی اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس ' قراردادیں اور مطالبات!!


 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com

11 نومبر2023… سعودی عرب کی میزبانی میں ریاض میں ہونے والے عرب لیگ اور او آئی سی کے مشترکہ اور غیر معمولی اجلاس کے اعلامیہ میں غزہ میںفوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایران' سعودی عرب ' ترکی پاکستان اور فلسطینی کی قیادت نے سخت ترین پیغام دیا، سربراہان مملکت اور حکومت نے اسرائیل کے جنگی جرائم کو عالمی عدالت انصاف میں لانے کا بھی مطالبہ کیا۔ غزہ پر بم باری اور آگ برسانے کو 36 دن ہو چکے۔ مسلم قیادت کے ہنگامی اجلاس گواہی دے رہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے تحفظ میں کس قدر سنجیدہ ہیں؟ مظلوم مجبوراور نہتے فلسطینوں کی دعاوں نے عرش ہلا دیا مگر مسلم حکمران خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے۔ ریاض میں ہونے والے اس اجلاس میں عالمی برادری سے اسرائیل کو جنگی سامان اور دیگر مصنوعات کی ترسیل روکنے اور تمام معاہدے منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی۔ مسلم ممالک سے بھی کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات پر نظرثانی کریں۔وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان روز اول سے فلسطنیوں کے ساتھ ہے اور جب تک آزاد فلسطین کے قیام کی راہیں ہموار نہیں ہوتیں یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا انہوں نے بھی عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ آگے بڑھ کر مسئلہ کے مستقل حل کی طرف تعمیری قدم اٹھائیں۔
''ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے'' لیجیے او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس بھی بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچا۔بہت دبنگ اور دھانسو قسم کا اعلامیہ جاری ہوا۔جس کا لب لباب یہ ہے کہ جناب والا جنگ بند کر دو یا کم از کم امداد پہنچانے کے لیے راستہ ہی کھول دو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی امت مسلمہ آپ کا یہ احسان عظیم کبھی نہیں بھولے گی۔ مسلم قیادت کا امن اجتماع ضروری اثر لائے گا کم ازکم اس تاثر کو ختم کرنے میں مدد ملے گی جس سے علیحدہ علیحدہ موقف سامنے آتا رہا، مسلم حکمرانوں کا ایک صفحہ پر آکر اور اکٹھے موقف کو یقینا پڑیرائی ملے گی۔ عرب لیگ اور او آئی سی کے حالیہ اعلامیہ سے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں تک واضع پیغام پہنچ گیا ۔ دوسری طرف برطانیہ، امریکہ، فرانس اورجرمنی میں ہونے والے طویل اور بڑے مظاہر ے بھی اپنی اپنی حکومتوں کی انسان دشمن پالیسیوں کو للکار رہے ہیں دنیا بھر میں ایسے واقعات ہر روز رونما ہورہے ہیں جب امریکی اعلی قیادت (صدر، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع) کو دوران تقریر غزہ میں جنگی بندی جیسے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔امریکہ شائد بھول رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں قرارداد کو ویٹوکراکر وہ اپنی چوہدراہٹ کو طوالت دے سکتا ہے، اب وہ دورگیا جب رائے عامہ کو'' غلام'' رکھا جاتا تھا۔ آج جدید دور کے ذرائع ابلاغ انسانیت کش پالیسیوں اور ظالم حکومتوںکو بے نقاب کررہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر کی طرف سے ایٹم بم چلانے کی دھمکی دراصل اس انسان دشمنی اور اس کھیل کا سلسلہ ہے جو 1945-46 میں امریکہ نے جاپان میں کھیلا تھا۔ امریکہ کو آج تک جاپان میں ایٹمی حلے پر سخت ترین سوالات کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ نے 2015میں رپورٹ جاری کی تھی کہ اگر معیشت کا یہی حال رہا تو اگلے پانچ سال میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔مگر ان تمام گزرے سالوں میں بے روز گاری غربت اور دیگر سماجی مسائل سے لڑتے غزہ کے شہری اسرائیلی جارحیت کا بھی مسلسل بہادری سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور گزشتہ کئی دنوں سے بھی اسرائیلی افواج کے سفاک اور وحشیانہ حملے برداشت کر رہے ہیں۔پہلے غزہ اور مصر کے درمیاں رفح کراسنگ پر فضائی حملہ اور نارتھ میں جبالیہ ریفیوجی کیمپ پر حالیہ بمباری تمام بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔جنگی جرائم اپنے عروج پر ہیں اور اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی تمام قرار دادیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی کو اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی اور کسی بھی جنگ کے دوران خواتین ،بچوں اور عمارات کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔مگر اسرائیل اپنی طاقت کے زعم میں اپنے توسیعی منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھا نے اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اسرائیلی آرمی کے ترجمان کا حالیہ بیان کہ ''ہم غزہ پر سینکڑوں ٹن بم گرا رہے ہیں، توجہ تباہی پر ہے، درستگی پر نہیں ''اسرائیل کے عزائم پوری طرح واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور بظاہر دنیا میں امن کے ٹھیکے دار اس عمل میں سہولت کاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو حماس کی جانب سے ''طوفان الاقصیٰ' نامی آپریشن کی جوابی کاروائی قرار دیا جا رہا ہے اور حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں اسرائیلی میڈیا اپنے عوام کو اشتعال دلوانے کے لیے چند جعلی ویڈیوز کا سہارا لے رہا ہے تا کہ اپنے عوام کو تمام مکروہ اعمال کا جواز پیش کیا جا سکے۔ اب تک غزہ میں پانچ ہزار سے زائد عام شہری جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اسرائیل کے جنگی جنون کا نشانہ بن چکے ہیں اور اور ایک ہزار سے زائد لاپتہ ہیں۔
حرف آخر!!
مسلم قیادت کا اکھٹا ہونا اور مشترکہ موقف پر ساتھ آنا خوش آئند ہے اگر مسلمانوں کی لیڈر شپ عرب لیگ اور او آئی سی کی صورت میں مسلسل بیٹھک کرتی رہے تو پھر کسی اور طاقت کو غزہ جیسا محاذ کھولنے کی جرا¿ت نہیں ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن