مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
کسی شہر میں، کسی علاقے میں امن کے قیام کے لیے ہر شہری کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ شہر کے یا کسی علاقے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے صرف ایک آدمی کافی ہوتا ہے۔بڑے سے بڑے شہر کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر وہ پورے شہر کے امن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ اس مثال کو تھوڑا سا پھیلائیں تو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سب سٹیک ہولڈر کا ایک پیج پر ہونا نہایت ضروری ہے۔ ملک میں ترقی اور خوشحالی کا اس وقت تک خواب قطعی طور پورا نہیں ہو سکتا جب تک سارے کے سارے سٹیک ہولڈر متفق نہ ہو جائیں، متحد نہ ہو جائیں، ایک پیج پر نہ آ جائیں۔صرف ایک سٹیک ہولڈر قومی اتحاد کا حصہ نہ بن کے ساری کوششوں کو جو ترقی اور خوشحالی کے لیے کی گئی ہوتی ہیں ان کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔
آج کل ہمارے ہاں عالمی ایجنڈے کے مطابق قومی اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ ہم مسلکوں اور تفرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، لسانیات کا منہ زور گھوڑا سر پر دوڑتا ہے جس نے ہمیں نیشنل ازم سے کوسوں دور کر دیا ہے۔آج بھی، اگر نیشنل ازم کو پروموٹ کیا جائے تو ہم گم گشہ راستہ ایک بار پھر سے تلاش کر سکتے ہیں، صحیح سمت میںآ سکتے ہیں۔ ملک کو ترقی اور خوشحال کی منزل سے دوچار کر سکتے ہیں۔ دشمن پاکستان میں تخریب کاری کا پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ نہ صرف کوئی موقع ضائع کرتا بلکہ خود سے ایسا کچھ کر دیتا ہے کہ ہمارا اتحاد پہلے بھی مثالی نہیں ہے جس حد تک بھی ہے اس کوبھی پارہ پارہ کرکے رکھ دیتا ہے۔
جنگیں کبھی ہتھیاروں سے ہوا کرتی تھی۔ اب بھی ہتھیاروں کی اہمیت کم نہیں ہے لیکن آج جنگوں کے لیے پروپیگنڈا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام کے ذہنوں کو جھوٹے بے بنیاد پروپیگنڈے سے پراگندہ کیا جاتا ہے۔ جو نیشنل ازم کے لیے زہرقاتل ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان کوہمارا دشمن عراق ،لیبیا،تیونس اور افغانستان بنانا چاہتا ہے ۔ یہ ممالک کبھی اپنے دفاع میں خودکفیل تھے ان کا دفاع بھی ناقابل تسخیر تھا۔لیکن پھر مسلکوں میں یہ لوگ بٹتے گئے ،تفرقہ بازی کا شکار ہو گئے۔ان کی ناقابل تسخیر حیثیت جدید ترین اسلحہ کو تقسیم در تقسیم نے زنگ لگا دیا، امریکہ کھل کر کھیلا۔ عراق ،شام ،ایران اور افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوئے اور مسائل میں دھنستے چلے گئے۔
بہت سے ممالک میں قومیت کا جذبہ ہے اور نہ ہی اس طرح کے ہتھیار ہیں جو آپ کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیتے ہیں۔کہنے کی حد تک جو آپ مرضی کہتے رہیں۔ ڈاکومنٹیشن میں آپ کو ہتھیار نظر آتے ہیں۔لیکن ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے کسی کے پاس دس لاکھ روپے ہوں وہ ان کو گن سکتا ہو،ان کو چھو سکتاہو مگر ان کو استعمال نہ کر سکتا ہو۔اسی طرح سے ہم مہلک ہتھیار رکھ سکتے ہیں،مشقیں کرتے ہیں، یہ سارا کچھ نمائشی طور پر ہوتا ہے، دوسروں کو دکھانے کے لیے۔ لیکن ہم ان ہتھیاروں کو استعمال اپنی مرضی کے مطابق نہیں کر سکتے۔اس کی سب سے بڑی مثال 27فروری2019کی ہے جب بھارت کی طرف سے پاکستان میں جارحیت کی گئی۔ پاکستان نے اس کا بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔بھارت کے دو جہاز گرا دیئے گئے، ایک پائلٹ گرفتار ہو گیا دوسرا پائلٹ جہاز کے ساتھ جل مرا تھا۔ اس موقع پر بھارت کی طرف سے پوری دنیا میں پروپیگنڈا کیا گیا۔ امریکہ تک بات پہنچائی گئی کہ آپ کے دیئے ہوئے ایف16جہاز بھارت کی جارحیت کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔جب آپ نے کوئی چیز خرید لی تو پھر آپ اس کو استعمال کرنے میں خودمختار ہیں۔ امریکہ یا دوسرا کوئی ملک کس طرح سے اعتراض کر سکتا ہے کہ ایف 16کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے کن مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔پاکستان کی طرف سے بھرپور تردید کی گئی کہ ایف 16جہاز استعمال اس حملے میں نہیں ہوئے، صرف اور صرف جے ایف تھنڈر17استعمال ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھارت کے جہازوں کو مار بھگایا اور دو کاشکار کیا گیا۔بات ہم کر رہے تھے کہ آپ کے پاس مہلک ترین،خطرناک ترین ہتھیار موجود ہیں لیکن ان کو اگر آپ استعمال نہیں کر سکتے تو پھر ان کا فائدہ کیاہے ؟۔قارئین! چند سال پہلے سعودی عرب کے ولی عہدشہزاد محمد بن سلمان نے جب عنانِ اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سعودی عرب کے دفاع کو اپنی ترجیح قرار دیا اور اسی مقصد کے لیے اسلامی امن فورس کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے پہلے سربراہ کے طور پر پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف کو پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد عالمی اسلامی امن فورس کا سربراہ بنایا گیا۔اس کے ساتھ سعودی عرب میں دوسوارب ڈالرز کے جدید ترین امریکن اسلحہ مارکیٹ سے ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے بھی کیے۔جن میں کئی سو ملین ڈالرز مالیت کا صرف ایک طیارہ ایف 35بھی شامل ہے جس کا پورا بریگیڈ خریدا گیا لیکن یہاں میں نوائے وقت کے قارئین کے لیے اس معاہدے کی ایک دلچسپ شق کا تذکرہ کرنا ضرور چاہوں گاکہ دنیا کی سب سب بڑی اسلحے کی اس ڈیل کی شق یہ تھی سعودی عرب معاہدے کے مطابق طے پائی رقم ایڈوانس ادا کرے گا اور امریکن اسلحہ ساز فیکٹریاں رقم کی وصولی کے بعد اس پراجیکٹ کے اسلحہ کو بنانا شروع کریں گی۔اور دوسری شق اس سے بھی زیادہ مزاح سے بھرپور ہے کہ اسلحہ بننے کے بعد سعودی عرب کی افواج کا ایک مخصوص حصہ تربیت کے لیے امریکہ جائے گا جہاں وہ اس اسلحہ کو چلانے اور سمجھنے کی صلاحیت حاصل کریں گے لیکن سب سے اہم شق یہ تھی کہ یہ اسلحہ اور سارے جہاز تیار کرکے امریکہ میں سپیشل ہینگر بنائے جائیں گے اور دوسرے اسلحہ مزائلوں، اینٹی مزائل شکن ریڈار سسٹم کو امریکہ ہی کے سٹورز میں سٹاک کریں گے۔ اور اس اسلحہ کو سٹاک کرنے کے دوران اس کی نگہداشت پر جو خرچہ آئے گا اور اس درمیان ہونے والی ریپئرمنٹ کے اخراجات بھی آئندہ کئی دہائیوں تک سعودی حکومت ادا کرتی رہے گی۔اور یہ کہ سعودی عرب کی جب کسی نیٹو ممالک سے جنگ کا خطرہ ہو تو امریکہ یہ اسلحہ سعودیہ کو استعمال کرنے کے لیے نہیں دے گااور نہ ہی سعودیہ یہ اسلحہ اسرائیل کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔یعنی دوسرے لفظوں میں اس ایگریمنٹ کی تشریح یوں بنتی ہے کہ سعودی عرب دوسو ارب ڈالرز کی دنیا کی تاریخ کی بھاری ڈیل کے ساتھ جو اسلحہ خریدنا چاہتا ہے وہ صرف مسلمان ممالک (یعنی یمن، ایران، شام، لیبیا، عراق اور دوسرے اسلامی ممالک)کے خلاف ہی استعمال کر سکتا ہے۔قارئین! میں سمجھتا ہوں کہ اتنا پُرمزاح اور فیصل آبادی جگتوں والا سٹیج ڈرامہ آپ نے عمرشریف، امان اللہ اور سہیل احمد کا بھی نہ دیکھا ہوگا۔
آج جس طرح ہم تقسیم در تقسیم ہیں، فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، خانہ جنگی کی طرف صورت حال جا رہی ہے۔ عوام کا اداروں پرسے اعتماد نہیں ہے اور اداروں کا عوام پر اعتماد نہیں ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے عوام کو معاف کردیں اور عوام اداروں کی غلطیوں سے صرف نظر کریں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کا کوئی اور راستہ ہو ہی نہیں سکتا۔ عوام اور سارے اداروں کو ملک کو متحد ،متفق اور ایک پیج پر آنا ہوگا یہی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
قارئین! میری پاکستان کے تمام سیکورٹی اداروں ،انٹیلی جنس ایجنسیوں ،ملک کی سلامتی کے دیگرسٹیک ہولڈرز اور پاکستان کے سیاستدانوں ،سرمایہ داروں اور ہر وہ شخص جس کی سلامتی پاکستان کی سالمیت سے جڑی ہوئی ہے ،سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کے لیے ملکی سلامتی اور پاکستان کی بقا کے لیے آئیں ہم ایک دوسرے کو پھر سے دلی طور پر معاف کرکے گلے لگائیں اور تمام گِلے شکوے بھلا کر ایک نئے پاکستان کی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔پنجابی میں کہتے ہیں :”ڈُلیاں بیراں دا کج نئیں بگڑیا“