اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ ماہ نومبر 2024ء کے پہلے پندرہ ایام لندن میں اس مرتبہ پاکستانی اور امریکی سیاست کے حوالے سے کافی گرم اور پررونق رہے۔ ارادہ یہی تھا کہ اس بار امریکہ کے دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ لائحہ عمل‘ انکی پالیسیوں اور بالخصوص پاکستان سے قائم انکی دوستی کے حوالہ سے لکھا جائے مگر! وہ کہتے ہیں ناں کہ سب سے پہلے اپنے گھر اور پھر کسی دوسرے کے گھر کا خیال رکھنا چاہیے۔
اب یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ ہمارے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف اگلے روز لندن آئے اور پھر یہاں سے امریکہ کا نجی دورہ مکمل کرنے کے بعد دوبارہ لندن سے ہوتے ہوئے چند ہی روز میں جنیوا کیلئے روانہ ہو گئے۔ انکی صاحبزادی اور پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ بھی اپنے میڈیکل چیک اپ کیلئے جنیوا پہنچی تھیں۔ اسے بھی اتفاق کہہ لیں کہ سپریم کورٹ کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اگلے روز لندن آنے کا فیصلہ کرلیا۔ دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہاں مڈل ٹمپل کالج میں انکے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد تھا جس میں بطور مہمان خصوصی انہوں نے شرکت تو کی مگر انکی ذات کے حوالے سے پی ٹی آئی کارکنان نے جس انداز سے ان کیخلاف احتجاج اور مظاہرہ کیا‘ اس اقدام سے پڑھے لکھے گورے تاہنوز سوالات پوچھ رہے ہیں۔ میری گوری کولیگ اب بھی مجھ سے یہ جاننا چاہ رہی ہے کہ لندن آنے والے پاکستانی سیاست دانوں‘ وزیروں‘ مشیروں اور عدلیہ کے اعلیٰ افسران کیخلاف برطانوی پاکستانیز ہی آخر کیوں احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں؟
اب آپ ہی بتائیے کہ اس گوری بے چاری پر کس طرح اصل حقیقت آشکار کروں؟ تاہم میں نے اسے سقراط کا یہ فکرانگیز قول کہ: ’’میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا اور یہ علم ہی حقیقی دانائی ہے‘‘ سنا کر اپنی جان چھڑالی ہے۔
اب یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ اور 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مولانا فضل الرحمان بھی اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ نجی دورے پر لندن پہنچ چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ دس روز یہاں قیام کریں گے۔ میں حیران ہوں کہ ملک میں جاری اتنے بڑے ’’سیاسی کھلار‘‘ کو چھوڑ کر وہ بھی یہاں تشریف لے آئے‘ اللہ خیر کرے۔اسے بھی اب آپ حسن اتفاق کہہ لیں کہ مسلم لیگ (ضیاء ) کے سربراہ‘ سابق وفاقی وزیر اور موجودہ رکن قومی اسمبلی محمد اعجازالحق بھی اگلے روز نجی دورے پر لندن پہنچ گئے۔
وہ بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی خالصتاً نجی دورے پر ہوں۔ آپ کے تحریری مزاج سے میں چونکہ بخوبی آگاہ ہوں‘ اس لئے یہی کہوں گا کہ میری لندن آمد کے حوالے سے ہاتھ اگر ’’ہولا‘‘ رکھیں گے تو آپ کے کئی مشکل سوالات کے جواب دینے میں مجھے آسانی رہے گی۔ ضرور انشاء اللہ۔ میں نے کہا۔ پی ٹی آئی سے ’’سیاسی یاری‘‘ آپ نے توڑ ڈالی اور الیکشن آپ نے اپنی جماعت سے لڑا‘ آخر کیوں؟ درست کہا آپ نے‘ تحریک انصاف سے بلاشبہ میرا سیاسی مفاہمت کا تعلق رہا‘ مگر انتخابات میں پی ٹی آئی نے ٹکٹ میرے سیاسی مخالفین کو دے دیا۔ ایسا ہی سلوک شیخ رشید سے روا رکھا گیا تاہم انتخابات کے بعد بھی میں نے واضح اعلان کیا کہ جو پارٹی مجھ سے اب رابطہ کریگی‘ ہائوس میں اسکے ساتھ بیٹھوں گا۔ مگر افسوس! پی ٹی آئی نے پھر بھی رابطہ قائم نہ کیا‘ ایسے حالات میں تحریک انصاف کے ساتھ میں کیسے چل سکتا تھا؟
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے بھی تو آپکے سیاسی اختلافات ہیں‘ ان سے اتحاد کیسے ممکن ہو گیا؟ میں نے پوچھا۔ یہ بھی درست کہا آپ نے۔ پیپلزپارٹی سے سیاسی اختلاف موجود ہے‘ مگر میرا یہ اصول رہا ہے کہ ملکی اور سیاسی استحکام کیلئے ہر مخالف سیاسی جماعت سے ڈائیلاگ ہونے چاہئیں۔ ایسی درجنوں مثالیں ہماری سیاست میں موجود ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ آپ فارم 47 کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں؟ میرے اس سوال پر اعجازالحق نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا! ہماری سیاست میں کہا تو بہت کچھ جاتا ہے مگر کئی بار حقائق مختلف ہوتے ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ فارم 45 اور فارم 47 کا چرچا ابھی تک جاری ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچ چکا ہے‘ مگر یہاں میں یہ آگاہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بنیادی معاملہ سمجھنے کا ہے۔ 1990ء میں جب انتخابات ہوئے تو اس وقت فارم 47 نہ تھا‘ بلکہ سیاسی اتحاد آئی جے آئی تھا مگر انتخابات متنازعہ قرار دے دیئے گئے۔ وہ کیس سپریم کورٹ میں آج بھی پینڈنگ پڑا ہے۔ اسی طرح 2018ء میں مجھے ہرا دیا گیا اور ناکامی آرٹی ایس پر ڈالی گئی اس لئے یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس بار بھی مجھے ناکام کرنے کیلئے فارم 47 کا خوب چرچا کیا گیا۔ میرے الیکشن کو تاہنوز متنازعہ بنایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس معاملے پر ہمیں اپنی سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں آپ نے بھی ووٹ دیا‘ آوازیں اب 27ویں آئینی ترمیم کی آنا شروع ہو گئی ہیں جبکہ ملک میں غربت‘ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ دہشت گردی اور بے گناہ افراد کو اٹھانے کے واقعات میں روزافزوں اضافہ جاری ہے‘ ایسے میں ان ترامیم کا کیا فائدہ؟
بڑا زبردست سوال کیا ہے آپ نے! اعجاز الحق نے کہا۔ 26ویں آئینی ترمیم اس لئے بھی ناگزیر تھی کہ موجودہ حالات میں ملک کے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی حالات کو بیلنس کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اسی طرح تمام اداروں بشمول عدلیہ کا استحکام ضروری ہے۔ یہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھا جو مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے تعاون سے طے پاگیا۔ جہاں تک متوقع 27ویں ترمیم کا معاملہ ہے تو میں آپ پر واضح کر دوں کہ میں اس ترمیم کے حق میں ہوں جس میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی شامل ہے۔ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کو آپ بھی خوب سمجھتے ہیں‘ یہ ذہن سازی کی تبدیلی کا نام ہے کہ معصوم لوگوں کو اداروں سے لڑائو‘ اسے ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے‘ اس لئے 27ویں آئینی ترمیم آنی چاہیے۔ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ‘ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف‘ جناب مولانا فضل الرحمن اور اب آپ سب لندن میں ہیں‘ اسے کیا اتفاق کہا جائے؟بہت خوب‘ اعجازالحق بولے۔ یقین جانئیے یہ واقعی اتفاق ہے‘ مولانا صاحب یقیناً یہاں ریلیکس کرنے آئے ہونگے مگر میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ میرا یہاں کسی رہنما سے رابطہ نہیں ہوا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے‘ اضافی ٹیکس حتیٰ کہ دوران تعطیلات ذاتی ٹیلی فون لے جانے پر بھاری ٹیکس! اس بارے میں اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے؟ وعدہ رہا‘ ضرور آواز اٹھائوں گا۔ وزارت اوورسیز سے یہ معاملہ اٹھاؤں گا۔ اعجاز الحق کے اس جواب پر میں نے ان سے مصافحہ کیا اور اجازت لے لی۔