ڈونلڈ ٹرمپ سے وابستہ توقعات

پاکستانی کچھ سیاست دانوں نے ٹرمپ کے خلاف سارے ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیئے ہیں جو ٹرمپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اب اسے جیتنے کے بعد سب مبارکباد دینے لگے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ چڑھتے سورج کو سلام۔ عمران خاں کے ٹائیگرز کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے ٹرمپ عمران خان کی رہائی کی بات کریں۔ ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کیا پاکستان کی حکومت امریکہ کے کہنے پر عمران خان کو چھوڑ دے گی؟ یہ ٹائیگرز کی خوش فہمی ہی ہو سکتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر امریکی کم اور پاکستانی زیادہ خوش نظر آرہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کا نہیں، پاکستان کا صدر منتخب ہوا ہے۔ ’’بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ والا محاورہ پاکستانی عوام پر ہی صادق آتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں عمران خان کو پسند کرنے والے کافی لوگ ہیں جن کا ماننا ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے منصب پر بیٹھا تو اس نے ایک بادشاہِ سلطنت کی طرح اپنی گدی پر بیٹھتے ہی حکم دینا ہے کہ جیل سے میرے دوست عمران خاں کو سلطنتِ شہباز سے اٹھا کر لے آؤ۔ ٹائیگرز تصور کرتے ہوں گے کہ جب عمران خان ٹرمپ کے دربار میں حاضر ہو گا توٹرمپ اٹھ کر اپنے اس جگری دوست کو گلیلگا کر کہے گا کہ ہم ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ سلطنتِ شہباز سے لیں گے۔ آج سے ہم راج کریں گے، تم بھی راجہ ہو۔ مگر یہ محض تصورات ہی ہیں۔ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہونے والا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے دورِ اقتدار میں عمران خان کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں جنہوں نے وائیٹ ہاؤس میں ان کا ریڈ کارپٹڈ استقبال کیا تھا لیکن یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا کہ ٹرمپ عمران خاں کی رہائی کی بات کرے گا۔ اورعلیمہ خان نے تو کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ ہمارا کوئی باپ ہے جو عمران خاں کو رہائی دلائے گا۔ ہمارے سورسزکا کہنا ہے کہ عمران خان اس سال بھی باہر آتے نظر نہیں آرہے۔ جب تک یہ حکومت ہے تب تک خان صاحب کا باہر آنا مشکل اور نا ممکن نظر آتا ہے۔ عمران خان صاحب کے کیس ختم ہونے کے بعد مزید کیس بنائے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ اور عمران خان کی دوستی کے علاوہ ان کی عادتیں بھی ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ جیسے عمران خان صاحب نے پاکستان میں حالات پیدا کیے تھے ویسے ہی ٹرمپ نے امریکہ میں پیدا کیئے۔ کہا جاتا ہے کہ موالانا فضل الرحمان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے وقت پی ٹی آئی کے کہنے پرعمران خان کی رہائی کی بات کی تھی جس پر مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری ایک پیج پر نظر آئے اور زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ ان کو کوئی اعتراض نہیں۔ وہ اپنی سیاست کررہے ہیں ہم اپنی ساسیت کرتے ہیں۔ عدلیہ اس کو آزاد کرنا چاہتی ہے تو کرے، ریاست اس کو آزاد کرنا چاہتی ہے تو کرے، ہمیں نہ اس کا فائدہ ہے نہ نقصان۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف عمران خان کی رہائی کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ملک میں ہمیشہ انتشار پھیلایا ہے اور وہ جیل سے باہر آگیا تو ملک کو پٹڑی سے اتاردے گا۔ ان باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جب تک شہباز شریف کی حکومت ہے تب تک عمران خان کی رہائی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں کہیں عمران خان کا ذکر تک نہیں کیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان میں صرف ایک ہی شخص کو جانتا تھا اور وہ عمران خان ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو ٹرمپ نے اب تک عمران خاں کا تذکرہ تک کیوں نہیں کیا۔ یقینناً ٹرمپ کا عمران خاں کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں۔ وہ فی الوقت امریکہ میں انقلاب لانے میں مصروف ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ 2025ء میں بہت کچھ بدلنے جارہا ہے اور دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔ سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ اتحادی حکومت کی ڈیل فائنل ہو گئی ہے۔ عمران خان کو کچھ اوپشنز بھی دی گئی ہیں۔ اگر وہ حکومت کی باتیں مان لیں تو ان کے ساتھ نرمی کی جا سکتی ہے اور عمران خاں جیل سے آنے کے بعد اچھی اپوزیشن کریں گے، جلسے دھرنے نہیں کریں گے۔ لیکن دیکھا جائے تو عمران خان اپنی طبیعت کے باعث کبھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پی ٹی آئی نے بھی نومبر میں فائنل کال دی ہے۔ علی امین گنڈا پورکا کہنا ہے کہ اب پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ لانگ مارچ ہو یا پھر جلسہ یا دھرنا۔ اب سپورٹرز سر پر کفن باندھ کر آئیں گے۔ پی ٹی آئی کے بعض حلقوں کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو منایا جارہا ہے کہ وہ عمران خان صاحب سے جیل میں میٹنگ کریں جس پر لگ رہا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں تک مولانا فضل الرحمان خان صاحب کو ملنے جیل جائیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا کہ مولانا فضل الرحمان اس دھرنے کا حصہ بھی بن جائیں جس کا علی امین گنڈا پور عندیہ دے رہے ہیں۔ آنے والے دن اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ شاید ملک کے حالات بگڑ جائیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللّٰہ پاک اس ملک اور عوام کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں۔ آمین۔ صم آمین۔

ای پیپر دی نیشن