نیشنل ہائی وے اتھارٹی قومی ادارہ بنے

گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران یہ ریمارکس آئے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا صوبوں کے درمیان دوہرا معیار ہے۔ پنجاب میں موٹروے بنتے ہیں تو جی ٹی روڈ بھی برقرار رہتا ہے جبکہ کراچی حیدرآباد سپر ہائی وے کو ختم کرکے نام نہاد موٹروے M-9قرار دیا گیا ہے اور اس پر کئی دہائیوں سے موجود پیٹرول پمپ‘ مارکیٹس ‘ ہوٹلوں وغیرہ کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں اس بات کا اعتراف خود وزیراعظم میاں شہبازشریف نے بھی کیا کہ کراچی حیدرآباد موٹروے نئی جگہ بنایا جانا چاہئے اور موجودہ M-9موٹروے نہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کو چاہئے کہ کراچی حیدرآباد موٹروے اور حیدرآباد سکھر موٹروے کی جلد تعمیر کے لئے اقدامات اٹھائیں اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو صوبوں کے درمیان امتیازی سلوک سے روکا جائے۔ 
گزشتہ روز وفاقی وزیر مواصلات علیم خان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ میں سرکاری خزانے سے کچھ نہیں لیتا بلکہ تمام اخراجات اور ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ ذاتی طور پر ادا کرتا ہوں۔ ان کا طرز عمل قابل تعریف ہے اور تمام سیاستدانوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ پاکستان بننے سے اب تک مال بردار گاڑیوں کے وزن لوڈ کرنے کا جو نظام اب تک چلاآرہا ہے اسے راتوں رات تبدیل نہیں کیاجاسکتا اور پہلے ہی بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ وفاقی وزیر مواصلات کو چاہئے کہ پہلے تمام صوبائی دارالحکومتوں اور پھر وفاق میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی‘ موٹروے پولیس اور ٹرانسپورٹرز کی میٹنگ رکھیں اور وفاق میں میٹنگ کرکے ایکسل لوڈ پر متفقہ اعلان ہونا چاہئے۔ زیادہ محنت کے بجائے مجھ سمیت ٹرانسپورٹرز کے وفد سے میٹنگ کرکے ایکسل لوڈ کا آسانی سے متفقہ فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے علیم خان کو چاہئے کہ فوری طور پر میٹنگ رکھ کر یہ مسئلہ حل کریں۔
ایک طرف نیشنل ہائی وے اتھارٹی بلند بانگ دعوے کرتی ہے اور موٹرویز کی تعمیر کے بیانات دیئے جاتے ہیں تو دوسری جانب سندھ صوبے کے عوام کو طویل عرصے سے مشکلات کا شکار بنارکھا ہے۔ اس سلسلے میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو چاہئے کہ جامشورو سیہون انڈس ہائی وے کا تعمیراتی کام فوری طور پر مکمل کرکے اسے ہرطرح کی ٹریفک کے لئے کھولا جائے اور انڈس ہائی وے خصوصاً شکارپور تک کی سڑک کو دو رویہ بہترین معیار پر بنایا جائے تاکہ انڈس ہائی وے پر سفر کرنے والے افراد کی مشکلات میں کمی آسکے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اس سستی کی وجہ سے سندھ کے عوام میں یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ سندھ کو وفاق کی جانب سے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ انڈس ہائی وے خیبر پختونخواہ‘ جنوبی پنجاب اور سندھ کی جانب سفر کرنے والوں کے لئے اہم شاہراہ ہے اور اس کو عالمی معیار کے مطابق رکھنا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ذمہ داری ہے لیکن تعمیرات کے نام پر طویل عرصے تک سڑک کو بند کرکے کام میں سست روی بھی عوام دشمنی کے مترادف ہے۔اب بھی جامشورو سے سیہون کی جانب 22وہیلر ٹریلرز کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ وزیراعلٰی سندھ اس معاملے میں مداخلت کرکے انڈس ہائی وے جامشورو تا دادو‘ لاڑکانہ سڑک کو ہر طرح کی ٹریفک کے لئے کھولنے کے احکامات صادر کریں۔ اس سے  ملحق پسماندہ علاقے میں سڑک کے ساتھ لوگوں کو بہترین روزگار بھی میسر آئے گا۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی وفاقی ادارہ ہے اور اس ادارے کی غیر ذمہ داری یا تساہل سے براہ راست وفاق بدنام ہوتا ہے اور اسی طرح اس کی اچھی کارکردگی بھی وفاق کی نیک نامی کا باعث بنتی ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ملک میں مساوی ہائی ویز کی تعمیر کی پالیسی پر عمل پیرا ہو تو اس سے صوبوں کے درمیان محبت میں اضافہ ہوگا اور اسی طرح کسی مخصوص صوبے یا علاقے کے عوام کو سہولیات کی فراہمی میں تاخیر سے وفاق اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی بدنام ہوگی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا کام صرف ٹول ٹیکس جمع کرنا نہیں بلکہ بروقت سڑکوں کی تعمیر و مرمت اس کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے۔ جامشورو سے شروع ہونے والی اہم قومی شاہراہ انڈس ہائی وے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر پشاور تک جاتی ہے لیکن اس کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جامشورو سے شکارپور تک انڈس ہائی وے کی حالت بہت خراب ہے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے طویل عرصے سے جامشورو سیہون انڈس ہائی وے کو بڑی ٹریفک کے لئے بند کر رکھا ہے۔ اگر تعمیراتی کام تیزی سے ہورہا ہوتا تو عوام بھی صبر کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر انتہائی سست روی کا شکار ہے اور عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
وفاق کی جانب سے موٹرویز اور شاہراہوں کی تعمیر کے دعوے اچھی بات ہے لیکن انہیں یہ کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آئے روز سنگین ترین حادثات رونما ہوتے ہیں جس میں اکثر اوقات تمام مسافر جاں بحق ہوجاتے ہیں اور کراچی کوئٹہ شاہراہ پر افغانستان‘ ایران و ترکی سمیت وسط ایشیائی ریاستوں کی ساری تجارت ہوتی ہے لیکن سنگل روڈ ہونے کے باعث بھیانک تصادم اور گاڑیوں کے کھائی میں گرنے کے بہت زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن کراچی کوئٹہ شاہراہ کو ڈبل کرکے عالمی معیار کے مطابق تعمیر نہیں کیا جارہا۔ اس رویئے سے بلوچستان کے عوام بھی وفاق کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام فنڈ مخصوص علاقوں پر خرچ کئے جاتے ہیں اور ہمیں انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ اگر ہماری ترجیحات درست ہوں اور اس اہم ترین شاہراہ کو عالمی معیار کے مطابق دو رویہ بنانے کو پہلی ترجیح بنالیا جائے تو ہماری ایران‘ ترکی‘ افغانستان سمیت دیگر ملکوں سے تجارت میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ آئے روز ہونے والے حادثات میں ضائع ہونے والی انسانی زندگیوں کو بھی بچایا جاسکتا ہے اور بلوچستان کے عوام کے احسا س محرومی کا خاتمہ بھی اسی طرح کے اقدامات سے ہی ممکن ہے۔
پنجاب میں بھی عوام کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ تمام تر وسائل لاہور سمیت بڑے شہروں پر خرچ کردیئے جاتے ہیں اور جنوبی پنجاب کے عوام کو یکسر نظرانداز کر رکھا ہے۔ مظفرگڑھ میانوالی روڈ خصوصاً ضلع بھکر کو میانوالی سے ملانے والی شاہراہ کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے اور طویل عرصے سے یہ شاہراہ ہمیشہ نظرانداز کی گئی ہے جس سے سنگین حادثات معمول بن چکے ہیں اور میانوالی مظفرگڑھ روڈ پر سفر کرنے والوں کو ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو پابند بنائے کہ میانوالی مظفرگڑھ روڈ کو فوری طور پر تعمیر کیا جائے اور جہاں مرمت کی ضرورت ہے فوری طور پر مرمت کا کام کیا جائے۔ 
کراچی میں ناردرن بائی پاس آئی سی آئی برج سے لیکر سپرہائی وے تک نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت کردیا گیا تھا۔ ناردرن بائی پاس شیرشاہ برج سے سپرہائی وے تک مٹی کی بھرائی کرکے کافی اونچا بنایا گیا تھا اور بارش سے شیرشاہ سے لیکر نیول کالونی تک کے علاقے میں سڑک کے نیچے سے بھرائی پانی کے ساتھ بارشوں میں بہہ گئی تھی لیکن ابھی تک اس بات کا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو علم نہیں ہوسکا اور صورتحال یہ ہے کہ خدانخواستہ کسی بھی وقت وزنی گاڑی سڑک کے بالکل کنارے پر آتے ہی سڑک سمیت نیچے کھائی میں گرنے کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہنگامی طور پر شیرشاہ سے لیکر حب ریور روڈ کے متوازی چلنے والی ناردرن بائی پاس کے دونوں کناروں کے ساتھ فوری طور پر مٹی کی بھرتی ڈال کر پتھروں سے پشتے بنائے ورنہ کسی بھی وقت سنگین حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔ 
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اس چشم پوشی یا لاپروائی کے باعث میں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ شاید اس ادارے کی اولین ترجیح صرف ٹول ٹیکس کی شرح بڑھاکر پیسہ کمانا ہی ہے اور سڑکوں کی بروقت تعمیر و مرمت کے لئے کوئی اور مخلوق آئے گی۔ کراچی جیسے شہر میں ناردرن بائی پاس کی یہ حالت بھی اس ادارے کے ذمہ داروں کی نظروں سے پوشیدہ ہے تو پھر ملک کے دور دراز علاقوں کے عوام کی شکایات تو کبھی حل نہیں ہوسکتیں۔ وزیراعظم اور وفاقی وزیر مواصلات کو چاہئے کہ وفاق کی بدنامی کا باعث بننے والے افراد کا محاسبہ کریں اور درج بالا پروجیکٹس کو فوری طور پر شروع کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں سے گزرنے والی قومی شاہراہوں کی تعمیر و مرمت پر دی جانی چاہئے جس سے یقینی طور پر وفاق مضبوط ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن