ہماری قومی زبان اردو وہ واحد عامل ہے جو اسلام کے بعد ملک پاکستان کی مختلف اکائیوں کو متحد رکھنے کی صلاحیت کی حامل ہے۔ پاکستان میں مختلف علاقوں میں 70سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے اردو کے علاوہ کوئی ایک بھی ایسی نہیں جس کو پورے ملک میں سمجھا یا بولا جا سکتا ہو۔ معروف براڈکاسٹر اور صحافی رضا علی عابدی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے دریائے سندھ کے منبع سے لے کر اس کے ساتھ ساتھ کراچی تک سفر کیا اور جس جس انداز سے بھی (کم و بیش ایک لہجے سے دوسرے لہجے میں ) سب لوگوں سے میری بات چیت ہوئی تو اردو میں ہی ہوئی۔
اب تحریک پاکستان کو دیکھیے، قائداعظم محمد علی جناح نے کم از کم 29 بار سنٹرل مسلم لیگ کونسل میں اس بات کا اعلان کیا کہ جو ملک ہم بنانے چلے ہیں اس کی قومی زبان اردو ہوگی۔ ایک دفعہ بڑا دلچسپ معاملہ سامنے آیا۔ سر فیروز خاں نون، جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بھی بنے، ایک ایسے ہی اجلاس میں انگریزی میں تقریر کر رہے تھے۔ قائداعظم نے فرمایا: اردو میں تقریر کرو۔ اس پر انھوں نے کہا کہ آپ بھی تو کبھی انگریزی میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ آپؒ نے جواب دیا، وہ زمانہ گزر گیا۔ اب میں اردو ہی بولتا ہوں، اردو میں ہی بات کرتا ہوں، اگرچہ میری اردو ٹانگے والے جیسی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے یہاں تک فرمایا تھا کہ اردو کے ساتھ میری وابستگی بلکہ میری عصبیت ایسی ہے جیسے اسلام کے حوالے سے ہے۔
دستور ساز اسمبلی کے ایک اجلاس میں دو ہندوؤں نے یہ قرار داد پیش کی کہ بنگلہ زبان چونکہ اکثریت کی زبان ہے، اس لیے اس کو قومی زبان قرار دیا جائے۔ اس وقت کے جتنے بھی سرکردہ بنگالی رہنما تھے ، ان سب نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور یہ مسترد کر دی گئی۔ چنانچہ 21 فروری 1948ء کو قائد اعظمؒ نے ڈھاکا میں جو اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، وہ اسی فیصلے کی روشنی میں تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے ہر دستور میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔ 1973ء کے دستور میں اس کی شق 251 کے تحت یقین دہانی کرائی گئی کہ آئین کے نفاذ کے 15 سال کے اندر اندر انگریزی کی جگہ ہر سطح پر اردو کو نافذ کر دیا جائے گا۔ اب دیکھ لیں 50 سال سے زائد عرصے میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن سوائے جنرل محمد ضیاء الحق کے دور کے کسی نے اس سمت کوئی کوشش نہیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ یوں سال ہا سال سے قومی زبان کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک روا رکھا گیا۔
ہمارے ایک دوست کوکب اقبال ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے اس کے ازالے کی خاطر 1999ء میں سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی کہ آئین کی مذکورہ شق پر عمل درآمد کا حکم دیا جائے، چنانچہ اس سلسلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا مشہور زمانہ فیصلہ 8 ستمبر 2015ء کو سامنے آیا۔ اب اس کو بھی نو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
1994ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ منظور وٹو نے انگریزی کو پہلی جماعت سے لازمی مضمون کے طور پر اختیار کرنے کا حکم جاری فرما دیا۔ وہ بچہ جسے ابھی اردو نہیں آئی وہ ماشاء اللہ ایک ادق غیر ملکی زبان بھی سیکھے گا۔ بعد ازاں 2010ء میں وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے بھی پہلی جماعت سے میٹرک تک انگریزی کو ذریعہ تدریس کے طور پر نافذ کر دیا۔ شہباز شریف کے اس اعلان کے بعد ہم نے 5 نومبر 2010ء کو پاکستان قومی زبان تحریک کی بنیاد رکھی اور اس وقت سے اب تک ایک طرف ہم عدالتوں سے رجوع کررہے ہیں اور دوسری جانب قومی پریس سے رابطے میں ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ جیسے بھی ممکن ہوسکے قومی زبان کو اس کا وہ جائز حق دلایا جاسکے جس کے لیے نصف صدی سے زائد عرصہ پہلے آئین میں وعدہ تو کیا گیا تھا لیکن اس کو پورا نہیں کیا گیا۔
حال ہی میں وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی کی وزارت کے ماتحت ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے اردو کے ساتھ ایک اور زیادتی کی ہے جس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ ہوا یہ ہے کہ اب سے پہلے گریجوایشن یا بیچلر آف سٹڈیز (بی ایس) کی سطح پر تمام طلبہ وطالبات کو جو اختیاری مضامین پڑھنا ہوتے تھے ان میں اردو بھی شامل تھی لیکن اب ایچ ای سی کی طرف سے جاری کی گئی نئی پالیسی کے تحت اردو کو اختیاری مضامین کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی زبان کی ترویج و اشاعت کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر ایچ ای سی اردو کو خصوصی طور پر اپنی تعلیمی پالیسی کا حصہ بناتی لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ ہے۔
یہ ہے قومی زبان کے ساتھ ناروا سلوک کی داستان ہے جو روز بروز طوالت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ قومی سطح پر نہ تو کسی سیاسی رہنما کو اس بات کا احساس ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی ساز اس حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا کررہا ہے۔ ہم نئے چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ آئین کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے قومی زبان کے نفاذ کے سلسلے میں کردار ادا کریں گے۔ انھیں چاہیے کہ وہ کم از کم عدالتوں کی حد تک ہی اس بات کو یقینی بنا دیں کہ فیصلے وغیرہ اردو میں جاری کیے جائیں تاکہ اس ملک کے باسیوں کی غالب اکثریت ان فیصلوں کو سمجھنے کے قابل ہوسکے۔ اگر ایسا ہو جائے تو آئین کی بالادستی کے سلسلے میں چیف جسٹس کا یہ احسن اقدام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔