اخراجات کم کریں یا 189 ارب روپے کے ٹیکس لگائیں آئی ایم ایف کا نیا مشورہ
ایسے مفت مشورے کب سے آئی ایم ایف دے رہا ہے۔ مگر کیا مجال ہے کہ ہماری کسی بھی حکومت پر اس کا اثر ہوا ہو۔ زراعت پر ٹیکس لگانے کی ابھی تک کسی نے ہمت نہیں کی کیونکہ سارے سیاستدان لینڈ لارڈ ہیں۔صنعتکار و کاروباری حضرات اور دیگر مالدارحکومتی و عوامی ادارے اور شخصیات ٹیکس دینے سے رشوت دے کر جان چھڑانا زیادہ پسند کرتی ہیں تو خزانہ کون بھرے گا۔ اسے بھرنے کے لیے ترقیاتی کاموں کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ اس کے لیے بالآخر کبھی آئی ایم ایف اور کبھی دوست ممالک اور کبھی ورلڈ بنک سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ وہ بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ۔ گویا ہم اپنا حق طلب کر رہے ہیں اور جب سود سمیت واپس ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے تو جان نکلتی ہے کیونکہ پیسے ہوتے نہیں۔ تو مزید قرضے لے کر سود ادا کرتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو کوئی آئی ایم ایف کے مشورے پر عمل کرے۔ اب پہلے توحکومت اپنے غیر ترقیاتی غیر ضروری اخراجات کم کرے۔ اپنے اخراجات پر کٹوتی لگائے اس طرح کم از کم اربوں روپے کی بچت ہو گی۔ لگڑری دفاتر، گاڑیاں، بنگلے مفت بجلی گیس کی سہولت ختم کی جائے۔ یہ لوگ تنخواہ کس بات کی لیتے ہیں کہ سہولتیں بھی مانگتے ہیں۔ حکومتی اخراجات کم کرنے سے بھی بات نہیں بنتی تو پھر ٹیکس بڑھانے ہوں گے یا زراعت پر بھی ٹیکس لگانا ہی اس کا حل ہے۔ جس سے حکومتوں کی جان جاتی ہے۔ اس لینڈ لارڈ مافیا کو ناراض نہیں کر سکتیں۔ مگر قرضہ بھی سود سمیت واپس لوٹانا ہے ورنہ آئندہ کوئی بھی ہم جیسے کنگالوں کو قرضہ نہیں دے گا بلکہ خطرہ ہے ہم دیوالیہ نہ قرار پائیں۔ اس لیے 189 ارب روپے کے ٹیکس لگانے سے بہتر ہے حکومت وفاقی و صوبائی تمام اپنے اللے تللے ختم کرے۔ بہت عیاشی کر لی اب کفایت شعاری اور سادگی سے کام لیں۔
آسٹریلیا میں بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی
ان ممالک نے جو ترقی کی معراج پر ہیں یعنی ترقی یافتہ ہیں۔ یہ تسلیم کر لیا ہے کہ موبائل کم عمر بچوں کی نشوونما کے لیے نہایت مضر ہے۔ یہ انکے دماغ اور صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں کو غبی اور سست بناتا ہے۔ وہ کام چور ہو جاتے ہیں۔ کھیل کود میں ورزش میں انہیں دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ موبائل کے اسیر بن کر اپنی فطری صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر غیر اخلاقی فحش مواد تک نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی رسائی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یورپ بھر میں آسٹریلیا سمیت بچوں کے موبائل استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سکولوں میں موبائل فون لانے پر پابندی ہو گی اسی طرح پبلک مقامات پر بھی بچے موبائل استعمال نہیں کرسکیں گے۔ اس سے بھی دو ہاتھ آگے، وہاں اب 18 سا ل سے کم عمر بچوں کے لیے تو نیٹ کی سہولت بھی بالغ افراد یعنی 18 سے زیادہ عمر والوں سے علیحدہ کی جا رہی ہے۔ اس طرح فحش سائٹس تک خودبخود ان کی پہنچ ناممکن ہو جائے گی۔ یہ ترقی یافتہ ممالک کا حال ہے جو اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنے کی پلاننگ پہلے سے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اپنے بچوں اور ان کے مستقبل سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دل بہلانے کے لیے ان سے اپنی جان چھڑانے کے لیے موبائل تھما دیتے ہیں۔ یوں وہ سکول جانے کی عمر تک اس نشے کی لت کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں اور ہم سکولوں میں موبائل لانے پر پابندی نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یوں ہم اپنے ہاتھوں اپنے مستقبل کا خانہ خراب کرتے ہیں۔ پھر روتے ہیں کہ بچے خراب ہو گئے ہیں۔ سنتے ہی نہیں۔ پڑھنے اورکھیلنے سے دور ہو گئیے ہیں۔ علیحدہ تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان سب باتوں کا علاج صرف اور صرف موبائل کے استعمال پر سخت پابندی سے ہی ہو گا۔
سموگ سے متاثر لاہور ، پشاور ، ملتان والے کراچی آ جائیں: بلاول
مشورہ تو بہت اچھا ہے۔ مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے یہ سموگ تو کہہ سکتے ہیں ایک قدرتی آفت ہے۔ اس سے انسانوں میں آنکھوں، گلا ، پھیپھڑے اور سانس کی بیماریاں پھیلتی ہیں یا ٹریفک حادثات میں اضافے سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ مگر کراچی جا کر ان جانے والوں کو پتہ چلے گا کہ وہاں تو انسانی مہربانیوں سے ہر وقت اڑنے والی دھول گاڑیوں کے دھوئیں سے ایسی ہی ابتر صورتحال ہر وقت موجود رہتی ہے۔ وہاں بھی یہ آنکھ ناک گلے اور سانس کی بیماریاں بنا کسی سموگ کے پھیلی رہتی ہیں اور ٹوٹی سڑکوں کی بدولت ٹریفک حادثے اور گردو غبارسے سورج چھپا رہتا ہے۔ اب یہ دعوت تو کڑاہی سے نکل کر چولہے سے گرنے والی ہے۔ شاید خود اگر بلاول گوگل نہ سہی کسی ڈرون کی مدد سے یا بلند عمارت سے کراچی کی فضائی صورتحال کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ ان کے کراچی کی فضا بھی اتنی ہی آلودہ اور خطرناک ہے جتنی ملتان لاہور اور پشاور کی دھند اور سموگ کی وجہ سے ہے۔ وہاں کوئی مری یا سوات جیسی معطر تازہ آب و ہوا میسر نہیں کہ دھند سے متاثر لوگ بھاگ کر وہاں آئیں اور بلانے والے کو دعائیں دیں۔ خدا جانے بلاول نے کیا سوچ کر شہریوں کو کراچی آنے کا.کہا شاید لوگوں کوزندہ درگور ہونے کے معنیٰ سمجھانے کے لیے یہ دعوت دی ہے۔ بہرحال اگر کراچی صرف ڈیفنس، کلفٹن اور بحریہ ٹائون میں ، کروڑوں کے بنگلوں اور گاڑیوں میں زندگی بسر کرنے کا نام ہے تو واقعی کراچی جنت ہے۔ جبھی تو سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی جدید ترین کوٹھیاں ،گاڑیاں اور اسلحہ بردار ملازم کراچی میں ہی رہتے ہیں۔ پنجاب سے بھی کچھ لوگ کراچی کی رنگا رنگیوں کا لطف لینے کے لیئے وہاں بھی ایک گھر لے لیتے ہیں۔ مگر سموگ ، آلودگی اور شور شرابے سے بچنے کے لیے کوئی کراچی نہیں جاتا کیونکہ وہاں یہ سب چیزیں وافر پائی جاتی ہیں۔ یہ بات کراچی والے بخوبی جانتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتاری و رہائی
یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ ’’نانی نے خصم کیا برا کیا، کر کے چھوڑا اور بھی برا کیا‘‘ اگر پولیس نے ان معزز رہنمائوں کو جو دفعہ 144 کو مانتے ہی نہیں اس کی خلاف ورزی پر پکڑا ہی تھا تو اتنی جلدی وارننگ دے کر چھوڑا ہی کیوں ، خواہ مخواہ کی بدنامی کیوں مول لی۔ خیبر پی کے میں وزیر اعلیٰ نے حسب معمول طوفانی بیان دیا کہ اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو جائز نہیں۔ وہ بانی سے ملنے اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔ اب کافی تعداد میں اکٹھے کیوں ہوئے اس کا ذکر انہوں نے نہیں کیا۔ یہ تو اب پولیس نے ان کو چھوڑتے وقت بتایا کہ انہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی ہے۔ مگر دیکھ لیں چٹکی بجاتے ہی میڈیا پر پی ٹی آئی نے گرفتاریوں کی خبر یوں چلا دی گویا اسد قیصر ، عمر ایوب ،شبلی فراز بیرسٹر گوہر و دیگر کو جیل یا حوالات پہنچا دیا گیا ہے۔ کارکن مشتعل ہونے لگے تھے مگر میڈیا نے بروقت یہ بھی بتایا کہ سب کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ مگر ابھی تک ان رہنمائوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ وہ کافی غصے میں دکھائی دیتے ہیں اور بار بار اپنی ملاقات نہ ہونے پر پولیس کو کوس رہے ہیں۔ اِدھر عدالتی حکم کے مطابق جیل حکام قیدی کی مرضی کے مطابق جن سے وہ ملنا چاہتے ہیں انہیں ملاقات کی اجازت دیتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ پھر یہ اکٹھے آئیں اور انہیں بھی دفعہ 144 کاسامنا کرنا پڑے اور ملاقات نہ ہو سکے۔ اس لیے دونوں طرف سے کوئی ایسا لائحہ عمل اپنانا چاہیے کہ ’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ پہلے ہی بانی کو ان کے بیٹوں سے فون پر بات نہ کرانے پر یوں شور ہو رہا ہے گویا وہ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے باپ کے ساتھ رہتے تھے اور پریشان ہیں جبکہ وہ دونوں نوجوان لندن میں اپنی والدہ کے پاس پرمسرت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر چاہیں تو وہ ملاقات کے لیے کسی بھی وقت پاکستان آ کر مل سکتے ہیں۔ انہیں کونسا روپے پیسے کی کمی ہے یا
ان کے پائوں میں مہندی لگی ہے۔