جنگ احد سے واپسی پر ایک عورت جس کا باپ ، بھائی اورشوہر جنگ میں شریک تھے بڑی بے تابی سے باہر نکلی۔ کسی نے اس سے کہا کہ تمہارا باپ ، بھائی اور شوہر تینوں اس جنگ میں شہید ہو گئے ہیں۔ اس عورت نے کہا میں کسی کے متعلق نہیں پوچھتی مجھے بس یہ بتائو کہ محبوب خدا ﷺ کا کیا حال ہے۔ لوگوں نے جواب دیا اللہ کے کرم سے آپﷺ ٹھیک ہیں۔ تو عورت نے جواب دیا اگر آپﷺ سلامت ہیں تو میں ہر مصیبت برداشت کر سکتی ہوں۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے جب حجر اسود کے سامنے پہنچے تو فرمایا میں تیری حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں میں تمہیں ہرگز نہ چومتا اگر تجھے میرے محبوب ﷺ نے نہ چوما ہوتا۔
عروہ بن مسعودؓ جب ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے تو کفار نے انہیں دربار رسالت ﷺ میں بھیجا کہ وہ مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لے کر آئیں۔ جب آپ وہاں پہنچے تو انہوں نے صحابہ کرام کے عشق مصطفیﷺ کا منظر کچھ اس طرح پیش کیا۔ آپ کہتے ہیں میں قیصر و کسری اور دوسرے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں لیکن اس طرح کسی کی تعظیم کرتے کسی کو نہیں دیکھاجس طرح آپ ﷺ کے صحابہ آپﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔
جب آپﷺ وضو فرماتے ہیں تو آپ کے وضو کا پانی صحابہ کرام نیچے نہیں گرنے دیتے اور اسے پانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کو شش کرتے ہیں اور پھر جب کسی کو پانی مل جاتا تو اسے اپنے چہرے پر لگاتے ہیں۔ اگر کسی کو پانی نہیں ملتا تو وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر اپنے منہ پہ لگاتا ہے۔ صحابہ کرامﷺ حضور نبی کریم ﷺ کے لعاب مبارک بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے۔بلکہ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے منہ پر لگاتے ہیں۔جب آپﷺ گفتگو فرماتے ہیں تو بڑی خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنتے ہیں اور جب کوئی حکم فرماتے ہیں تو اس کو بجا لانے میں دیوانہ وار دوڑتے ہیں۔
صحابہ کرام ، تابعین ، صوفیاء کرام کی زندگیاں عشق مصطفیﷺ میں گزری تاریخ کے اوراق اس طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ جنہوں نے حضور نبی کریمﷺ سے وفا کی اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے لیے وقف کر دیا آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود ان کے قصے پڑھے اور سنائے جاتے ہیں اور قیامت تک ان کا ذکر خیر ہوتا رہے گا۔ اسی لیے علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں