وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو معاشی استحکام کے تسلسل کے لیے اصلاحات کا عمل جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ یقین دہانی منگل کو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دوسرے روز ہونے والے مذاکرات میں کرائی گئی۔ آمدن میں 190ارب روپے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جن تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے ان میں پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) نافذ کرنے اور پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز شامل ہے۔ آئی ایم ایف نے ایل این جی کی درآمد پر سرکاری ملکیتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کا بھی کہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے مراعات و سہولیات دینے پر کبھی اعتراض نہیں کیا جاتا اور نہ ہی بیوروکریسی کو ملنے والے بے تحاشا الاؤنسز اور سہولتوں پر کوئی قدغن لگانے کی بات کی جاتی ہے۔ اس کی صاف سیدھی وجہ شاید یہ ہے کہ اشرافیہ اور بیوروکریسی مل کر اس ملک میں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں اور انھوں نے عملی طور پر اس ملک کو عالمی ساہوکار ادارے کے آگے گروی رکھ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر اسی طرح عمل ہوتا رہا تو مرے کو مارے شاہ مدار کی تصویر بنے عوام زندہ درگور ہو جائیں گے۔حکومت عام اشیاء پر مزید ٹیکس لگانے اور منی بجٹ لانے سے گریز کرے ورنہ عوامی ردعمل اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔ ٹیکس چور مراعات یافتہ اشرافیہ کو ٹیکس قوانین کی عمل داری کے تابع کیا جائے۔ علاوہ ازیں، بیوروکریسی کو عام سرکاری ملازمین کی طرح صرف تنخواہوں تک محدود کیا جائے تاکہ عوام کے محصولات سے اکٹھا کیا جانے والا سرکاری خزانہ عوامی مسائل کے حل کے لیے خرچ کیا جاسکے۔