میاں نواز شریف کی بھارت  سے اچھے مراسم کی خواہش

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اس امر پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے امریکہ اور اپنے ہمسایوں بشمول بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ بھارت سے تعلقات سدھارنا کوئی مشکل نہیں۔ گزشتہ روز لندن میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بھارت کو مشورہ دیا کہ اس کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آ کر کھیلنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کچھ خراب ہیں تو انہیں بہتر کیا جا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر دوبارہ انتخاب سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ ماضی میں پاکستان امریکہ اچھے تعلقات تھے مگر اب ان کے مزید بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اگر ماضی میں بھارت کے ساتھ تعلقات  بگڑے  ہیں تو انہیں بھی سدھارنے کی ضرورت ہے۔ اچھی بات ہوتی اگر بھارت کی ٹیم پاکستان آ کر کھیلتی۔ عوام بھارتی ٹیم کو پاکستان میں آ کر کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کسی کے ساتھ تعلقات خراب رکھ کے کیا کرنا ہے۔ 
بے شک ہمسایہ ممالک سمیت اس خطے اور اقوام عالم میں سب کے ساتھ بہتر تعلقات ہی ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہے۔ یہ تعلقات لازمی طور پر ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام بروئے کار لا کر ہی استوار کئے جا سکتے ہیں جس کے لئے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، یکطرفہ محبت کبھی سودمند نہیں ہوئی۔ اس تناظر میں پاکستان کی ہر ممکن کوشش اور خواہش بھی یہی رہی ہے کہ اس کے بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک سے اچھے خوشگوار تعلقات استوار ہوں مگر پاکستان کے ساتھ بنا کر رکھنا چالاک ہندو بنیا کی سرشت میں ہی شامل نہیں جس کے زیر اثر بھارتی حکمرانوں نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس کے ساتھ خدا واسطے کے بَیر کا آغاز کر دیا تھا۔  اس نے تقسیم ہند کے ایجنڈہ کے مطاق کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد وہاں اپنی افواج بھجوا کر اس کے بڑے حصے پر اپنا تسلط جما لیا جو ابھی تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس نے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے تحت اسے کشمیری عوام کی توقعات کے برعکس بھارت میں ضم بھی کر دیا ہے اور اس اقدام کے خلاف انسانی حقوق کے عالمی اور علاقائی اداروں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے اٹھنے والی آوازوں کی بھی پروا نہیں کی۔ 
مودی سرکار تو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں میں بھی ہمہ وقت مصروف ہے اور اس مقصد کے لئے دہشت گردوں کی فنڈنگ اور سرپرستی کرتی ہے۔ اگر بھارت پاکستان کے خلاف اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے رجوع کر لیتا ہے اور یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کر دیتا ہے تو ہمارا اس کے ساتھ اور کیا تنازعہ ہے۔ ہم یکطرفہ طور پر اس کے ساتھ تعلقات استوار کر کے کشمیریوں کا سات دہائیوں سے زیادہ کا آزادی کا سفر تو بہر صورت کھوٹا  نہیں کر سکتے۔

ای پیپر دی نیشن