وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے آگے آنا ہو گا۔ ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کیلئے ترقی یافتہ ملکوں کی مدد چاہئے۔ ترقی پذیر ممالک کو این ڈی سیز پر عملدرآمد کیلئے 2030ء تک 6.8 ٹریلین ڈالریعنی چھ ہزار ارب ڈالر سے زیادہ درکار ہوں گے، گلوبل کلائمیٹ فنانس فریم ورک کے ازسرنو تعین کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے زیرِ اہتمام باکو میں منعقدہ کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ اس اہم کوپ۔29 گول میز کانفرنس میں تمام شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے اس اہم نوعیت کی کانفرنس کیلئے وقت نکالا۔ اس کانفرنس کا مقصد پرانے معاملے جو اب پیچیدہ ہو چکے ہیں، کے حل کیلئے نئی سوچ اور راہیں تلاش کرنا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنا ہو گا، ترقی پذیر ممالک کو این ڈی سیز پر اپنے عوام کیلئے خدمات دینا ہوں گی۔ ڈونرز ممالک کو اپنے ترقیاتی امداد کے وعدے پورے کرنا ہوں گے، کوپ۔15 میں ایک ارب ڈالر فنانسنگ کے وعدے کئے گئے تاہم ان میں سے صرف 160 ملین ڈالر کے وعدے پورے ہوئے۔
پاکستان بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوا ہے اور اسے ماضی قریب میں دو بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی بحالی کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، 2022ء میں پاکستان کے کل رقبے کا ایک تہائی حصہ تباہ کن سیلاب سے متاثر ہوا جس کے بعد اس کے تمام ترقیاتی اور کلائمیٹ فنڈ بنیادی ریلیف اور انسانی کاوشوں کیلئے صرف کرنے پڑے۔آج پاکستان شدید سموگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔
کلائیمیٹ چینج پوری دنیا کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔اس سے ترقی پذیر ملک ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک بھی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔فضائی آلودگی جو آج کلائیمیٹ چینج کی وجہ بن چکی ہے اس میں ہر ملک کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے مگر سب سے زیادہ اس کے ذمہ دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں۔پاکستان کا کلائی میٹ چینج میں آدھا فیصد بھی حصہ نہیں ہے مگر یہ متاثر ہونے والے ٹاپ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
کلائمیٹ چینج دنیا کو تباہی کی طرف لے جا نہیں رہی بلکہ لے جا چکی ہے۔دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک ہر طرف موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہی ہو رہی ہے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گزشتہ سال 2023ء میں یورپ ،ایشیا ،شمالی امریکا، افریقہ اور ایشیاء کے بعض علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں رہے۔ برطانوی اخبار میل آن لائن نے عالمی موسمیاتی ادارے ڈبلیو ایم او کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے کہ جولائی 2023ء میں گرمی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے اور یہ جولائی ایک لاکھ 20 ہزار سال میں سب سے گرم مہینہ تھا۔ 1850ء کی دہائی کے بعد سیزمین کو ایسے موسم کا کبھی سامنا نہیں ہوا۔ اس صورتحال پر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس بھی فکر مند نظر آئے۔ انہوں نے دنیا پر واضح کیا کہ ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کا دورختم اور’’گلوبل بوائلنگ‘‘ کا دورشروع ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی شدت نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ اب تک ریکارڈ کیے گئے تیس گرم ترین دنوں میں سے اکیس دن جولائی کے تھے۔2024ء میں صورتحال ایک سال قبل سے قدرے بہتر تھی لیکن کوئی بھی سال 2023ء کا ریکارڈ برابر کر یا توڑ سکتا ہے۔گزشتہ سے پیوستہ سال 2023ء کے مارچ اور اپریل کے دوران دنیا کے کئی ممالک میں گرمی کی شدید لہر رہی، ماہ جون میں سمندری طوفانوں نے دنیا کو پریشان کئے رکھا اور جون، جولائی میں سیلاب نے شہروں کا رخ کر لیا تھا۔
کلائمیٹ چینج کے باعث تباہی اور بربادی کے سائے سروں پر منڈلا رہے ہیں مگر عالمی سطح پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ترقی یافتہ ممالک تو کلائمیٹ چینج کے مضمرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہوں گے مگر ترقی پذیر ممالک اپنی تباہی پر محض تماشائی بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پاکستان آج سموگ سے بھی بری طرح دوچار ہے جو فضائی آلودگی میں متاثرہ ممالک کی فہرست میں کبھی پہلے نمبر پہ ہوتا ہے کبھی دوسرے تیسرے نمبر پر۔ اس وقت ملتان اور لاہور سموگ کی شدید لپیٹ میں ہیں۔ایئر کوالٹی انڈیکس زیرو سے 50 تک آئیڈیل مانا جاتا ہے اس کے بعد اس کے اثرات خطرے کی حد کو چھونے لگتے ہیں۔ایئر کوالٹی انڈیکس 250 سے کراس کرے تو یہ انتہائی خطرے تک پہنچ جاتاہے۔ اس سطح پر اس کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے ایمرجنسی کا نفاذ ہو جانا چاہئے۔ملتان اور لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا ایک ہزار سے اوپر رہنا معمول بن چکا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دو شہروں کے لوگوں کی زندگیوں کو کتنے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔یہ صرف ان شہروں کے باسیوں پر ہی موقوف نہیں بلکہ ان شہروں کے درمیان جتنے بھی علاقے آتے ہیں سب خطرات کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ایسے خطرات سے کوئی ایک ملک اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔عالمی سطح پر کوآرڈی نیشن اورکوششوں کی ضرورت تو ہے ہی،اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کو بھی آلودگی کے خاتمے کے لیے مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔بھارت میں سموگ کی صورتحال پاکستان سے بھی بدتر ہے۔ آلودگی پیدا کرنے کے ذرائع ختم کرنے کے لیے طویل المدتی پالیسیوں کی ضرورت ہے مگر آج ضرورت ہنگامی اقدامات کی ہے۔بارش سے سموگ کا خاتمہ ممکن ہے مگر اس کے لیے بادلوں کا ہونا ضروری ہے۔پاکستان کے پاس مصنوعی بارش کی صلاحیت تو ہے مگر بادل ہوں تو ہی بارش برسائی جا سکتی ہے۔بھارت میں روزانہ ایک دو جگہ پر بادل موجود ہوتے ہیں مگر بھارت مصنوعی بارش برسانے کی صلاحیت کے باوجود ایسا نہیں کرتا۔اس کی طرف سے سموگ کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انہیں متاثرہ ممالک کی امداد کے لئے گذشتہ کوپ کانفرنس میں کئے گئے وعدے نبھانے چاہئیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی ان سے یہی اپیل کر چکے ہیں۔ پاکستان کو تو سموگ کے سنگین مسئلہ کا بھی سامنا ہے جس سے کروڑوں انسانی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ آج انسانی بقا کے موثر اقدامات ہی عالمی اور علاقائی قیادتوں کے لیئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کوپ 29 کانفرنس میں کلائمیٹ چینج کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کے سامنے جو تجاویز رکھی ہیں اس پر عمل کرکے ہی انسانیت کی بقا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں۔ کوپ کانفرنس 29 میں شہباز شریف کا ٹھوس موقف
Nov 14, 2024