حکومت نے پارلیمان کی منظوری کے بعد بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت تین برس سے بڑھا کر پانچ برس کر دی ہے، اس کے سبب ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ اس اقدام کی اچانک ضرورت کیوں پڑی اور اس تبدیلی کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔پارلیمان سے منظور شدہ ترامیم حکومت کو یہ اجازت بھی دیتی ہیں کہ وہ ان اداروں کے سربراہوں کی مدتِ ملازمت میں مزید پانچ برس کی توسیع کر سکے۔پاکستانی فوج میں کسی بھی جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 64 برس تک رکھی گئی ہے۔ لیکن نئی ترامیم کے بعد اس اصول کا اطلاق فوج کے سربراہ پر نہیں ہو گا۔یاد رہے کہ اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔دنیا کے دو طاقتور ترین ممالک یعنی امریکہ اوربرطانیہ میں فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت چار برس ہے۔
امریکہ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی مدت ملازت چار برس ہے جبکہ برطانوی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے کی مدت بھی چار برس ہی ہے۔دوسری جانب پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا میں فوج کا سربراہ تین برس کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔
کئی دہائیوں پہلے پاکستان میں بھی فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت چار برس ہی ہوتی تھی۔ ایوب خان کے زمانے میں مدتِ ملازمت چار سال رہی۔جبکہ گزشتہ دنوں ہونے والی 26 ویں آئینی ترامیم میں حکومت کا ارادہ تھا کہ وہ تمام سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع کردے اسطرح سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملازمت میں توسیع سے انہیں آئینی بینچ یا اسوقت کی مجوزہ آئینی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کیا جاسکے۔ لیکن مجوزہ ترامیم پر حکومت کوکامیابی نہ ہو سکی کیونکہ حکومت کو دوتہائی اکثریت کے حصول کیلئے جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے ووٹ درکار تھے ان کے اور چند آزاد اراکین کی حمایت سے ہی یہ ترامیم ممکن ہوسکتی تھیں۔اس لئے حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اپنا گیم پلان چینج کرے اور مخصوص اہداف کی تکمیل پر اکتفا کیا گیا۔ اس کے بعد ہی حکومت نے سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کی ہے۔
موجودہ حالات میں معاشی وسیاسی استحکام سے متعلق پالیسیوں کے تسلسل کے لئے حکومت کو قانون سازی کا حق حاصل ہے اور معاشی اعتبار سے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری بھی ضروری ہے اس امر کیلئے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے اور معاملات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان نے آئی ایم ایف کو مطلع کیا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس مشینری نے ریٹیلرز، تھوک فروشوں اور ڈسٹری بیوٹرز سے11 ارب روپے جمع کیے ہیں۔تاہم، تاجِر دوست اسکیم (TDS) کے بارے میں توقعات پوری نہیں ہو سکیں ۔اس مد میںٹیکس کی جمع شدہ رقم تازہ ترین عداد و شمار کے مطابق صرف 17 لاکھ روپے ہے جب کہ پہلی سہ ماہی کے لئے مقرر کردہ ہدف 10 ارب روپے تھا۔سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگریال نے آئی ایم ایف وفد کے ساتھ پہلے سیشن کا آغاز کیا جو 11 سے 15 نومبر 2024 تک اسلام آباد میںجاری رہے گا۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ آئی ایم ایف کس طرح جواب دیتا ہے ،یہ تجویز بھی ممکن ہے ایک منی بجٹ پیش کیا جائے تاکہ ایف بی آر کو پہلے چار مہینوں میں ہونے والے 189 ارب روپے کے محصولات کے خسارے کو پورا کیا جا سکے یا غیر محدود اخراجات کو کم کرنے کا قابل عمل منصوبہ تیار کیا جائے۔
جیسا کہ فنڈ کے عملے کا وفد مالی سال کے لیے طے شدہ مالیاتی اور خارجی فریم ورک سے انحراف سے بچنے کے لیے درمیانی راستے کی تجاویز کے لیے مذاکرات کرنے آیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومت پی آئی اے کی نجکاری میں بھی ناکام ہوئی ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری اسامیاں ختم کرنے کے حوالے سے بھی کام ہورہا ہے رائٹ سائزنگ نجکاری ٹیکسیشن سمیت دیگر امور میں بھی پیچیدگیاں ظاہر ہورہی ہیں تاہم دیکھنا ہوگا کہ حکومت کیسے ان معاملات پر قابو پاتی ہے اور آئی ایم ایف کے مطالبات پر عمل کر پاتی ہے آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں ہی پنشن بل پر بھی کام ہورہا ہے حکومتی ڈھانچے کی کمی کیساتھ پنشن کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا عندیہ بھی دے چکی ہے لیکن معاملات جوں کے توں ہیںپینشن نظام میں تبدیلی کا اطلاق یکم جولائی سے ریٹائر ہونے والے ملازمین پر ہوگیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ سرکاری نوکری کرنے والوں کو یا تو نئی نوکری کی تنخواہ ملے گی یا وہ پرانی نوکری کی پینشن وصول کرسکیں گے۔ صدر زرداری نے وزیرِ اعظم کی تجویز پر فنانس بل 2024 کی منظوری دے دی ہے۔ فنانس بل یکم جولائی سے لاگو ہوگیا ہے۔
نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ سرکاری ملازمین میں گریڈ ایک سے 16 تک کے وفاقی اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں 25 فی صد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فی صد تک اضافہ کیا گیا۔ ملازمین کا دعویٰ ہے کے تنخواہیں جتنی بڑھائی گئی ہیں اس سے زیادہ تو ٹیکس لگایا گیا ہے۔وزیرِ خزانہ کے مطابق پینشن اسکیم بجٹ کا حصہ نہیں تھی۔ اس کے بارے میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے فیصلہ کیا ہے۔ ای سی سی سے منظور کی گئی پینشن اسکیم کے مطابق سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ سے 2 سال پہلے تنخواہ کے 70 فی صد کے برابر گراس پنشن ملے گی۔ 25 سال تک سرکاری نوکری کے بعد رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لی جا سکے گی۔رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لینے والوں کو 60 سال کی عمر تک کم از کم 3 فی صد اور زیادہ سے زیادہ 20 فی صد سالانہ پینشن سے کٹوتی ہوگی۔
پینشنر کو پینشن میں سالانہ اضافہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی پینشن کی بنیاد پر ہی ملے گا اور پنشن میں سالانہ اضافہ علیحدہ رقم کے طور پر شمار ہوگا۔پے اینڈ پینشن کمیشن ہر 3 سال بعد بیس لائن پینشن کا جائزہ لے گا۔پینشنر کی وفات کے 10 سال بعد تک ان کے اہلِ خانہ (بیوہ یا غیر شادی شدہ بیٹی) کو پینشن مل سکے گی۔ اسی طرح سرکاری ملازم کی موت کی صورت میں اس کے اہلِ خانہ کو 25 برس تک پینشن ملے گی۔ پینشنرز کے بچوں کے جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہونے کی صورت میں عمر بھر پینشن مل سکے گی۔ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ سرکاری نوکری کرنے والوں کو یا تو نئی نوکری کی تنخواہ ملے گی یا وہ پرانی نوکری کی پینشن وصول کر سکیں گے۔ سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ سرکاری نوکری کرنے پر صرف ایک محکمے سے پینشن لے سکیں گے۔ میاں اور بیوی دونوں اگر سرکاری ملازم ہوں گے تو ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں کو پینشن ملے گی۔
پینشن میں سالانہ اضافہ 2 سال کی اوسط مہنگائی کے 80 فی صد کے برابر ہوگا۔ مہنگائی میں اضافہ اسٹیٹ بینک کے جاری اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ نے فنانس بل میں 32 پیجز پر مشتمل ترامیم پیش کی تھیں، جنہیں ارکان نے کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔ نئی پینشن اسکیم کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گیا ہے جبکہ آرمڈ فورسز کو ایک سال کے لیے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں اتحادیوں کے ووٹ آڑ ے آ گئے
Nov 14, 2024