پنجاب کے متعدد شہر اس وقت سموگ کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے روزمرہ زندگی میں اتنا تعطل آچکا ہے کہ سکولوں میں چھٹیاں دے دی گئیں ہیں جس کو اب بڑھانے پر غورشروع ہوگیا ہے اس کے علاوہ تجارتی سرگرمیاں بھی محدود ہو گئیں ہیں آوٹ ڈور تقریبات پر پابندی لگ چکی ہے سموگ سے نمٹنے کے لئے مزید ہنگامی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سموگ پاکستان اور خصوصا پنجاب میں کئی برسوں سے ایک توجہ طلب مسئلہ بن چکا ہے مگر اس کا پائیدا ر حل نکالنے اور باقاعدہ قانون سازی کرنے کی بجائے اس کے آتے ہی شارٹ ٹرم حل نکالے جاتے ہیں کوئی لانگ ٹرم منصوبہ بندی ابھی تک نہیں کی گئی۔ماضی میں جن ممالک میں بھی سموگ جیسی صورتحال پیدا ہوئی انہوں نے اس کے پائیدار حل نکال کر اس سے چھٹکارہ حاصل کر لیا۔جس کی بڑی مثال انگلینڈ کی ہے جہاں ونسٹن چرچل کے دور میں جب عالمی جنگ عروج پر تھی تو وہاں بھی سموگ نے تباہی مچائی اور چار ہزار کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،مگر ونسٹن چرچل نے کمال ذہانت سے اس پر قابو پایا،انہوں نے اس وقت لندن اور اس سے ملحقہ شہروں کے اندر سٹیمر لگائے تاکہ نیچے والی فضا کو صاف کیا جاسکے،حکومت کے لوگوں نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر شہریوں میں مفت ماسک تقسیم کئے ،دھواں چھوڑنے والی انڈسٹری کو شہروں سے باہر منتقل کیا۔
ماحولیاتی آلودگی کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ شہر کے اندر سڑکوں پر سٹیمر لگاکر سموگ سے وقت جان چھڑائی جاسکتی ہے جبکہ پروپیلر (PROPELLER) لگاکر فضا کو صاف کیا جاسکتا ہے۔پنجاب اس وقت سموگ جیسی آفت میں مبتلا ہے اس کے لئے فوری اقدامات اور ان پر سختی سے عمل درآمد بہت ضروری ہے جیسے دفعہ ایک سو چوایس کا نفاذبہت ضروری ہے فصلیں اور کوڑا آج بھی لاہور اوراسکے مضافات میں انہی دنوں جلایا جاتا ہے ۔جنرل مشرف کے دور میں سموگ پر سخت اقدامات ہوتے تھے ۔شہریوں پر روزانہ کی تعداد میں پانچ ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے تک جرمانے کیے جاتے رہے ۔مگر مگر اب پہلے جیسے اقدامات نظر نہیں آرہے ۔ وزیراعلی مریم نواز نے کہا ہے کہ سموگ پرانا مسئلہ ہے، راتوں رات حل نہیں ہوگا۔ سموگ کا مسئلہ برسوں پرانا ہے، سموگ کے مسئلے کو چند سال میں چل کر دیں گے، ماضی میں سموگ کے مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ 6سے 7سال بعد ملک میں دوبارہ ترقی کا عمل جاری ہے، پاکستانی معیشت بہتر ہو رہی ہے، پاکستان جلد مشکلات سے نکل آئیگا۔اس کے علاوہ حکومت پنجاب نے سموگ سے نمٹنے کیلئے 16نکاتی ایکشن پلان مرتب کیا ہے جس میں 20سال پرانی گاڑیوں کی تبدیلی بھی شامل ہے جبکہ فضائی آلودگی کی مسلسل مانیٹرنگ اور پنجاب کے 36اضلاع میں اس حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی پر مروجہ قوانین کو لاگو کیا جائے گا۔حکومت الیکٹرک وہیکلز پالیسی بھی نافذ کرنے جارہی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ شہروں میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، آلودگی پھیلانے والی صنعتوں، اینٹوں کے بھٹے، کوڑا، ٹائر، پلاسٹک اور فصلوں کی باقیات جلانے ٹریفک کی بھرمارسڑکوں پر غیرقانونی تجاوزات اورتعمیراتی باقیات چھوڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔اس سلسلے میں انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے انسپکٹرز ہر ضلع میں نگرانی کریں گے اگر مذکورہ اقدامات ہوجاتے ہیں۔سموگ اخراج میں 42فیصد کمی واقع ہوگی ۔
دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ پنجاب بھر سے ایک ماہ مختلف بیماریوں کے 20 لاکھ 7 ہزار 711 سرکاری ہسپتالوں میں رپورٹ ہوئے ، پنجاب بھر سے ایک ماہ صرف سانس کی بیماری کے 18 لاکھ 63 ہزار 793 مریض رپورٹ ہوئے ،شہر لاہور سے ایک ماہ میں ایک لاکھ 38 ہزار 91 مریض سرکاری ہسپتالوں میں رپورٹ ہوئے۔لاہور سے ایک ماہ میں سانس کی بیماری کے ایک لاکھ 26 ہزار 230 مریض رپورٹ ہوئے ، لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں سات روز میں سانس کے 32783 مریض رپورٹ ہوئے، لاہور سے سات روز میں آستھما کے 1731 مریض سامنے آئے۔لاہور سے سات روز میں دل کے 805 مریض ، فالج اٹیک کے 208 مریض آنکھوں کے 530 مریض مریض رپورٹ ہوچکے ہیں۔لاہور سے گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں فالج اٹیک کے 158 ، آنکھوں کے 263 مریض رپورٹ ہوئے ۔سات روز میں پنجاب بھر سے 5 لاکھ 16 ہزار 439 مریض رپورٹ ہوئے ،سات روز میں پنجاب بھر سے سانس کے 4 لاکھ 78 ہزار 361 مریض رپورٹ ہوئے ،سات روز میں پنجاب سے آستھما کے 30824 ، دل کے 2933 مریض رپورٹ ہوئے ،سات روز میں پنجاب سے فالج اٹیک کے 1360 ، آنکھوں کے 2961 مریض رپورٹ ہوئے۔گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پنجاب سے 93516 مریض سامنے آئے ،گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پنجاب سے سانس کے 85794 ، استھما 6042 مریض رپورٹ ہوئے ،گزشتہ چوبیس گھنٹوں دل کے 547 ، فالج اٹیک کے 385 ، آنکھوں کے 748 مریض رپورٹ ہوچکے ہیں۔ سموگ کی وجہ سے ایک ایمرجنسی کی صورت حال ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اگر اس پر فوری قانون سازی نہ کی گئی تو ہربرس نومبر سے جنوری تک تین ماہ کے لئے پنجاب میں زندگی مفلوج ہو کر رہ جایا کرے گی ۔
کئی شہروں میں سموگ کا راج، دیرپا منصوبہ بندی مفقود
Nov 14, 2024