کرہ ارض پرانسان کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی نقصانات میں روز بروز اضافے کا سامناہے۔ پاکستان بھی دنیا بھر کی طرح غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے 11 نومبر سے 22 نومبر تک آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری رہنے والی کانفرنس آف دی پارٹیز (کوپ) سے خطاب میں واضح کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کو 2022 میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ملک کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب زیادہ متاثر ہونے والے 10ممالک میں شامل ہے۔ دنیا نے موسمیاتی تباہی سے ہونے والے نقصانات پر پاکستان کی امداد کے وعدے کیے، کوپ 28 میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد ہونا چاہیئے۔ واضح رہے کہ باکو میں جاری کوپ یعنی کانفرنس آف دی پارٹیز دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سب سے اہم اجلاسوں میں سے ایک ہے جس میں دنیا بھر کے 197 ملکوں کے نمائندے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور آلودگی اور ماحولیاتی تپش کے مسائل سے نمٹنے کے لیے غور کرتے ہیں۔آذربائیجان کے درالحکومت باکو میں کوپ 29 کانفرنس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں نقصان ہوگا، سیلاب کے باعث پاکستان میں اسکولوں،گھروں اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا،کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر آذربائیجان کو مباکباد پیش کرتا ہوں، پاکستان نے 2022 میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا، سیلاب کے باعث اسکولوں کی عمارتیں گرگئیں، سیلاب کے باعث ہزاروں افراد بے گھر ہوئے، جان نقصان کے ساتھ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، سیلاب کے باعث پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا بیشر ممالک کو سامنا ہے، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقتوں میں زیادہ نقصان ہوگا، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کی طرح دیگر ممالک بھی تباہ کن سیلاب جیسی صورتحال کا سامنا کریں،۔پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کررہا ہے، ہم نیشنل کاربن مارکیٹ فریم ورک پر کام کررہے ہیں، دنیا کو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مدد کرنا ہوگی۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان متبادل توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے، محفوظ مستقبل کے لیے ماحولیاتی تحفظ پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوپ 29 ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا، اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کئے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی برادری سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق خصوصی فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیرممالک کو 2030 تک 6.8 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے، موسمیاتی سرمائے میں قرضوں کو ایک نیا قابل قبول معمول نہیں بننا چاہیے۔کوپ 29 کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں کمزور ممالک کی ضروریات کو مؤثر طریقے سے پورا کرنے کے لیے عالمی موسمیاتی مالیاتی فریم ورک کو از سر نو تشکیل دیا جانا چاہیے۔بعدازاں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجکستان کی میزبانی میں گلیشیئرز کے تحفظ سے متعلق تقریب سے بھی خطاب کیا تھا، اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان سمیت اس خطے اور دنیا بھر میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز کی حفاظت کے لیے بہت قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ گلیشیئرز کے تحفظ کے عالمی سال کے موقع پر گلیشیئرز کے تحفظ کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام جانا چاہیے،مستقبل میں پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے گلیشیئرز کا تحفظ ضروری ہے، گلیشیئرزپینے کے پانی کابڑا ذریعہ ہیں.وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان میں 7ہزار گلیشیئرز ہیں، پاکستان میں گلیشیئرز سے 90فیصد پانی حاصل کیاجاتا ہے، درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرزکا پگھلنا خطرناک علامات ہیں،انسانیت کی بقا گلیشیئرز کے تحفظ سے مشروط ہیں۔واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کا سالانہ سربراہی اجلاس 3 روز قبل آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں شروع ہوا تھا ، جس میں گزشتہ ایک سال کے دوران ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فنڈز کی فراہمی سمیت مالیاتی اورتجارتی امور پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
دو ہفتے جاری رہنے والے کوپ 29 فورم میں تقریباً 200 ممالک کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہ سائمن اسٹیل نے اپنے افتتاحی خطاب میں ایک نئے عالمی موسمیاتی مالیاتی ہدف کے بارے میں بتایا تھایہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی جب خبردار کیا گیا ہے کہ 2024 میں درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹونٹے کا خدشہ ہے اور غریب ملکوں کے لیے موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی مذاکرات ناگزیر ہیں۔پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرے سے دو چار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے، جنہیں غیر معمولی سیلابوں، مون سون کی شدید بارشوں، گرمی کی تباہ کن لہروں اور تیزی سے پگھلتے گلشیئر کا سامنا ہے۔جون 2024 میں گرمی کی لہر کے نتیجے میں بلند درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جس نے صحت عامہ اور زراعت کو بری طرح متاثر کیا۔باکو میں شریک ہونے والے مندوبین کو امید ہے کہ وہ مزید مالی وسائل فراہم کرنے کے منصوبے تیار کریں گے جو صاف توانائی کو فروغ دینے اور ملکوں کو ماحولیاتی تپش سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکیں۔ ممالک اپنے نئے قومی موسمیاتی ایکشن پلان بھی پیش کریں گے، جن میں وہ یہ تفصیل بیان کریں گے کہ وہ کس طرح سے اخراجات کو کم کریں گے۔ کانفرنس کے اختتام پر، مذاکرات کار ایک حتمی معاہدے کی منظوری دینے کی کوشش کریں گے جس میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے نئے وعدے شامل ہوں۔دوسری جانب۔’کوپ 29‘ کے اجلاس میں یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خطاب کرتے ہوئے 2024 کو موسمیاتی تباہی کی ’ماسٹر کلاس‘ قرار دیا ہے عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں انتونیو گوتریس نے کہا ’’2024 آب و ہوا کی تباہی کی ایک ماسٹر کلاس ہے، اگلے سمندری طوفان سے پہلے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے والے خاندان؛ کارکنان اور زائرین ناقابل برداشت گرمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیلاب کمیونٹیز کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے، اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیتا ہے۔انھوں نے کہا ’’بچے بھوکے سو رہے ہیں کیوں کہ فصلیں خشک سالی کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں، یہ تمام آفات اور تباہیاں محض انسان کے ہاتھوں لائی گئی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہو رہی ہیں۔انھوں نے واضح کیا ہے کہ’’گلوبل وارمنگ روکنے کے لیے دنیا کے پاس آخری موقع ہے، اس سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔